ذرائع ابلاغ سے مراد وہ تمام ذرائع ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں انگریزی میں یہ ذرائع میڈیا کہلاتا ہے۔اس کی دو اقسام ہیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن کی مدد سے ہم لکھ کر بات چیت کرتے ہیں جیسے کہ کتاب، اخبار، رسائل اور الیکٹرونک میڈیا یعنی ٹی وی انٹرنیٹ موبائل ریڈیو وغیرہ اسی انٹرنیٹ کی ترقی یافتہ شکل ہے سوشل میڈیا جس نے نہایت ہی کم وقت میں بہت تیزی سے اپنا نیٹ ورک پھیلایا ہے اور لوگوں میں مقبولیت حاصل کی جوان تو جوان بچے اور بوڑھے بھی سوشل میڈیا کے استعمال سے خوب واقفیت رکھتے ہیں۔
مادی ترقی کے اس دور میں میڈیا نے نہایت تیزی سے ترقی کرتے ہوئے چینلز کی بھرمار کر دی ہے، اس سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پروگرام بھی نشر ہونے لگے اب اسمیں میڈیا کیا دکھا رہا ہے آیا وہ غلط ہے یا صحیح یا جو دکھایا جارہا ہے وہ ہمارے ملکی مفاد میں ہے یا نہیں ،ہماری تہذیب سے میل کھاتا ہے یا نہیں،عوام کی تربیت کر رہا ہے یا عوام کو بگاڑ رہا ہے؟, اپنے دینی تشخص کو برقرار رکھے ہوئے ہے یا نہیں یہ چیک کرنا بہت ضروری ہے اور اس چیک کرنے کے لیے “مانیٹرنگ” کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے چونکہ یہ چیک میڈیا پر آ نے والے کونٹینٹ پر رکھنا ہے اس لیے اسے “میڈیا مانیٹرنگ” کہا جاتا ہے, جو کہ موجودہ دور کے لئے نہایت ضروری و ناگزیر ہے۔
الیکٹرانک میڈیا جیسے جیسے ترقی کرتا جارہا ہے ویسے ویسے اخلاقی پستی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور ناظرین کو دکھانے کے لئے چینلز کے پاس زیادہ تر غیر اخلاقی و بے حیائی والے کونٹینٹ ہی رہ گئے کہنے کو پاکستانی میڈیا ہے لیکن ڈرامے اور پروگرام دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی اسلامی ملک کا میڈیا ہے۔
بحیثیت امت مسلمہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہمارا سب سے بڑا اور اہم فریضہ ہے اس فتنوں کے دور میں جبکہ میڈیا کچھ غلط دکھا رہا ہے تو ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ اس کے خلاف جہاد کریں۔ اب وہ جہاد قلم کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں زبان کے ذریعے بھی، جس کے پاس لکھنے کی صلاحیت و سہولت ہے وہ اپنے قلم سے اس کے خلاف کام کرے اور جو بولنے کی طاقت رکھتا ہے وہ اپنی زبان کے ذریعے جہاد کرے۔
کیونکہ برائی دیکھنے والا بھی اتنا ہی گناہ گار ہوگا جتنا برائی کرنے والا اور اس کی تشہیر کرنے والا۔ اور پھر جب انسان مسلسل برائی دیکھتا ہے اور اس کے خلاف کچھ نہ کرے تو پھر وہ برائی برائی نہیں رہتی اور دیکھنے والا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ اسے برائی بھی نہیں سمجھتا اسلئے معاشرے سے خیر ختم ہوتی جا رہی ہے کہ ہم برائی دیکھ کر اتنا عادی ہوگئے کہ ہمیں برائی برائی نہیں لگتی اسلئے ہم اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتے۔
میڈیا مانیٹرنگ کا کام بھی نہی عن المنکر کی ایک قسم ہے جو کہ موجودہ دور کے ناگزیر بن چکا ہے اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ بہت سے لوگ برائی دیکھ کر اسے صرف دل میں برا جانتے ہیں جو کہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
اب نہایت ہی ضروری ہے کہ ہم اس کام پر توجہ دیں اور اسے نہایت دلجمعی سے ایک منظم ٹیم بن کر انجام دیں اور اپنے اپنے حصے کا کام کرتے رہیں اور نتائج کا ذمہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ کیونکہ ہمارا کام سے منع کر دعا کیونکہ ہمارا کام صرف محنت اور دعا کرنا ہے باقی کام اللہ کا ہے۔
کیوں کہ اگر ہم نے اپنے حصے کا کام پوری ایمان داری و اخلاص نیت کے ساتھ کیا تو دنیا میں اس کا بدلہ ملے نہ ملے آخرت میں اسکا اجر پکا ہے جو کہ اصل کامیابی ہے۔