چین بھر میں رواں برس03 ستمبر چینی عوام کی جاپانی جارحیت اور عالمی جنگ میں فاشسٹ قوتوں کے خلاف فتح کی 75 ویں سالگرہ کےطور پر منایا جا رہا ہے۔اس دن کو منانے کا ایک مقصد جہاں اس جنگ میں قربانیاں پیش کرنے والے ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے وہاں دنیا کو یہ پیغام بھی دینا ہے کہ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں فاشسٹ قوتوں کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے۔
چین کے خلاف جاپانی جارحیت کے تاریخی پہلووں کا جائزہ لیا جائے تو 07 جولائی 1937 کی رات کو جاپانی فوجی دستوں نے اپنے ایک گمشدہ فوجی کی تلاش کی آڑ میں بیجنگ سے نزدیکی “وان پنگ” کاونٹی میں داخلے کا مطالبہ کیا۔چینی دستوں نے اُن کے نا جائز مطالبے کو مسترد کر دیا جس کے بعد جاپانی دستوں نے کاونٹی پر حملہ کر دیا اور لاگو پل کو بھی بمباری سے تباہ کر دیاگیا۔مقامی چینی دستوں نے جاپانی افواج کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور یوں چین کی جاپانی جارحیت کے خلاف ایک عظیم مزاحمتی جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ آٹھ جولائی کو چینی کمیونسٹ پارٹی نے پوری قوم کے نام ایک پیغام میں کہا کہ وہ جاپانی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔اسی بنیاد پر جاپان مخالف ایک قومی اتحاد تشکیل دیا گیا۔
تاریخی حقائق کے مطابق اس جنگ میں 35 ملین چینی شہریوں نے اپنی جانیں قربان کیں جبکہ اقتصادی اعتبار سے چین کو 600 بلین ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔چینی عوام نے مسلسل آٹھ برسوں تک جاپانی جارحیت کا ڈٹ کر سامنا کیا اور بلاآخر فتح حاصل کی۔چین کی اس مزاحمتی جنگ کو ایک منصفانہ جدوجہد اور اپنی سالمیت اور قومی وقار کا عظیم دفاع قرار دیا گیا۔1937 سے 1945 تک لڑی جانے والی یہ جنگ چین کی جدید تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔اس جنگ نے چینی عوام کو جذبہ حب الوطنی سے سرشار کیا اور مخالف قوتوں کے خلاف اتحاد اور یکجہتی سے صف آراء ہونے کی ترغیب دی۔چینی عوام کی یہ مزاحمت صرف چینی عوام اور جاپانی افواج تک محدود ایک جنگ نہ رہی بلکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران فاشسٹ مخالف جدوجہد کو بھی چینی عوام کی قربانیوں کی بدولت ایک نئی طاقت ملی۔ چین کا یہ محاز دوسری عالمی جنگ میں فیصلہ کن فتح کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوا۔
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں جاپان مخالف قوتوں نے انتہائی نامساعد حالات میں جاپانی جارحیت کا ڈٹ کر سامنا کیا مگر ہمت نہیں ہاری۔چین کا مقابلہ عسکری قوت کے لحاظ سے ایک مضبوط دشمن سے تھا مگر چینی عوام کا مادروطن کے دفاع کا جذبہ ایک آہنی چٹان ثابت ہوا جس پر غلبہ پانا جاپانی فوجیوں کے بس میں نہ تھا۔ اگر شنگھائی معرکے کی ہی بات کی جائے تو اُس وقت جاپان کے پاس فضائی طاقت چین سے کئی گنا بہتر تھی مگر چین نے تین ماہ تک بھرپور مقابلہ کیا اور اس جنگ میں تقریباً تین لاکھ چینی فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور جاپان کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ ہم صرف تین ماہ میں پورے چین پر قبضہ کر لیں گے۔
اس جنگ میں جاپانی فوج نے ظلم کے ایسے پہاڑ توڑے جنہیں رہتی دنیا تک سیاہ الفاظ میں لکھا اور یاد رکھا جائے گا۔ جاپانی فوجی دستوں کا اُس وقت چین کے دارالحکومت نان جنگ میں چھ ہفتوں تک قتل عام ، خواتین کی عصمت دری اور ظلم و بربریت تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ان چھ ہفتوں کے دوران تین لاکھ چینی شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔ووہان کی جنگ میں بھی تقریباً چار لاکھ چینی فوجیوں نے اپنی جانیں پیش کرتے ہوئے جاپان کی پیش قدمی مضبوطی سے روکی۔
چینی عوام کی مزاحمتی جنگ سے یورپ اور پیسفک محازوں پر فاشسٹ مخالف جدوجہد کو ایک نئی طاقت اور حمایت ملی جبکہ جاپانی سامراج کا دنیا پر غلبہ پانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ جاپان کا سویت یونین پر فوج کشی کا منصوبہ “ناردرن مارچ” بھی ناکامی سے دوچار ہوا ۔ اس جنگ کا سب سے اہم نکتہ یہ رہا کہ چینی عوام نے جانوں کی قربانیاں دیتے ہوئے جاپان کے لاکھوں فوجیوں کو چینی محاز پر روکے رکھا اور مشرق بعید اور بحرالکاحل کی جانب جاپانی فوجی دستوں کی پیش قدمی روک دی۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اتحادی افواج پر دباو کافی حد تک کم ہو گیا اور جب “پیسفیک وار “شروع ہوئی تو اُس وقت جاپان کے فوجی دستوں کی کل تعداد تقریباً اکیس لاکھ تھی جس میں سے لگ بھگ چودہ لاکھ فوجی چین میں موجود تھے جبکہ صرف چار لاکھ جاپانی فوجی بحرالکاحل کے لاکھوں مربع کلومیٹر جنگی محاز پر لڑ رہے تھے۔یوں یہ تاریخی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ”پیسفیک وار ” کے خطرناک ترین مرحلے میں 67فیصد جاپانی افواج تو چینی عوام کی عظیم مزاحمتی جنگ میں الجھ کر رہ گئی تھی۔
دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ چین نے امریکہ کی قیادت میں دیگر اتحادی افواج کو مضبوط ردعمل کے لیے ایک بنیاد فراہم کر دی۔اتحادی قوتوں کے سربراہان بھی چین کی اس جدوجہد کے مداح رہے ہیں اور اُس وقت امریکی صدر فرینکلین روزویلیٹ نے ایک موقع پر کہا کہ اگر چین جاپانی جارحیت کا راستہ نہ روکتا تو جاپانی فوجی دستے باآسانی آسٹریلیا اور انڈیا پر فوری قبضہ کر لیتے اور مشرق وسطیٰ کی جانب پیش قدمی جاری رکھتے۔ اس طرح چین فاشزم کے خلاف ایک مضبوط قوت بن کر ابھرا۔دسمبر 1943 میں چین ،برطانیہ اور امریکہ نے ایک مشترکہ قاہرہ اعلامیہ جاری کیا جس میں فاشسٹ مخالف جدوجہد میں جاپانی سامراج کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے اصولوں کا تعین کیا گیا جبکہ جاپان کی جانب سے شکست تسلیم کرنے کے حوالے بھی ایک مشترکہ اعلامیہ جولائی1945میں جاری کیا گیا جسے عالمگیر حمایت ملی۔
چین کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں نے نہ صرف فاشسٹ قوتوں کو ایک مضبوط مزاحمتی پیغام دیا بلکہ فاشزم سے چھٹکارے کے خواہش مند تمام گروہوں کے دل جیت لیے اور انہیں امید کا ایک توانا پیغام دیا ۔چینی عوام کی جدوجہد آج بھی دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ اپنے جائز حقوق کے دفاع کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جا سکتا ہے اور انسانیت مزید کسی سامراجی قوتوں کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے چین کی تیزرفتار ترقی بھی واضح عکاس ہے کہ فاشسٹ قوتوں سے نجات ہی دنیا میں امن و استحکام اورمشترکہ ترقی کی بنیاد ہے۔