گھر کے آنگن میں اگر کوئی زہریلا پودا نمودار ہو جس سے گھر کے تمام افراد کو خطرہ محسوس ہونے لگے تو فوراً اسے جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص اپنی یہ رائے پیش کرے کہ اسکی شاخیں کاٹ دی جائیں تو ایسے شخص کی اس رائے کو یہ کہہ کر رد کردیا جائے گا کہ شاخیں کاٹنے سے کل دوبارہ سے یہ تناور ہوکر نقصان پہنچا سکتا ہے۔ گویا عقل مند لوگوں کی رائے پرعمل کرتے ہوئے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے گا تاکہ مسئلہ ہی ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے، یعنی نا رہے گا بانس نا بجے گی بانسری۔ ہماری روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا حل بھی مستقل بنیادوں پر ہی کیا جاتا ہے تاکہ آئندہ کبھی اس مسئلہ کا سامنا ہی نا کرنا پڑے مگر انفرادی و اجتماعی سطح پر ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔
اکثر و بیشتر جذبات میں آکر ہم اس مسئلہ کے وقتی حل پر ہی اکتفا کرتے ہیں جس سے اصل مسئلہ جوں کا توں اپنی جگہ پر برقرار رہتا ہے بس وقتی طور پے کچھ دیر کیلئے زیرزمین چلا جاتا ہے اور حالات سازگار ہوتے ہی دوبارہ سر اٹھا لیتاہے۔ یاد رکھئیے کسی بھی مسئلہ کے حل کیلئے جب تک مسقبل بنیادوں پر اسکے اسباب کی تلاش کے بعد حل نہیں نکالا جائے گا معاشرہ انفرادی اجتماعی سطح پر آئے دن ایسے ہی مسائل کا شکار ہوتا رہے گا۔
کچھ روز قبل لاہور موٹروے پر ایک ایسا دلدوز واقعہ پیش آیا جسے لکھتے بھی قلم کانپ اٹھتا ہے۔ ایک ماں کی اسکے بچوں کے سامنے جس بےدردی سے عصمت دری کی گئی اسے بیان کرتے بھی جسم میں کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ اس واقعہ کی خبر ملتے ہی الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیاپر یک دم کہرام مچ گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی و سماجی نمائندے یک دم اپنے بِلوں سے باہر آگئے اور سب ایک ہی زبان میں ایسے بدبختوں کیلئے سخت ترین سزا تجویز کرنے لگے جنہوں نے رات کی تاریکی میں ایک ماں کی عزت تار تار کی۔ کسی نے ان درندوں کی سرعام پھانسی کا مطالبہ کیا تو کوئی ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سزا لے کرسامنے آیا، کسی نے زندہ درگور کرنے کی تجویز پیش کی تو کسی نے گولی سے اڑانے کا کہ ڈالا، وفاقی وزیر فیصل واوڈا صاحب تو ایسے درندوں کیلئے ” آختی کاری ” کا قانون لیکر میدان میں کود پڑے۔ بہرحال ہر ایک نے اپنے غصے کا اظہار الگ الگ طریقے سے کیا جوکہ کرنا بھی چاہیے تھا۔
مگر یاد رکھئیے سزا اس مسئلہ کا مستقل حل ہرگز نہیں، یہ تو اس قبیح فعل کا نتیجہ کے طور پر دی جانے والی سزا ہے اور اسکی مثال زہرناک درخت کی محض شاخیں کاٹنے کے مترادف ہے۔جبکہ درخت اپنی جڑیں لئیے جوں کا توں ایک نئے شکار کا منتظر ہے۔ جب تک ہم جنسی درندگی کے اصل اسباب کی تلاش کرکے انکو جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینکیں گے جنسی بھیڑئیے ایسے ہی عورتوں اور معصوم بچیوں کی عزتیں تار تار کرتے رہیں گے۔پھر زینب ہو یا مروہ، جی ٹی روڈ ہو یا موٹروے، گھر ہو یا دوکان، بھیڑ ہو یا تنہائی عورت کسی جگہ بھی محفوظ نہیں۔
اک طرف تو جنسی درندگی کو بھڑکایا جائے اور دوسری طرف اس کے نتیجے پے اتنا سخت درعمل کیا جائے یقینا یہ قول وفعل کا وہ تضاد ہے جس پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم واقعی اپنی ماں،بہن،بیٹی اور معاشرے کی ہر عورت کی عزت محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں اور ملک عزیز سے ریپ جیسے قبیح فعل کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے ان اسبا ب کو تلاش کرکے انکا خاتمہ کرنا ہوگا جس سے ایک مرد درندگی کی اس انتہا تک جاپہنچتا ہے۔
آئیے ان اسباب پر ایک نظر ڈالیں جو اس درندگی کی وجہ بن رہے ہیں۔
جب ہمارے ملک میں زنا الرضا کی کھلی چھوٹ ہوگی اور حرام طریقے سے جنسی ہوس پوری کرنے کیلئے جگہ جگہ فحاشی کے اڈے قائم ہوں گے تو لامحالہ جنسی درندگی پروان ہی چڑے گی۔ایک اسلامک ملک کی شاہراہوں پر جب سورج ڈھلتے ہی فحش عورتیں کچھ روپوں کے عوض اپنا جسم بیچنے نکل آئیں گی تو پھر آپ زنا بالجبر کی راہیں کیسے بند کرسکیں گے۔۔۔؟
زنا بالرضا کو تحفظ دے کرکیا معاشرے میں جنسی درندگی پروان نہیں چڑھ رہی۔۔۔؟اگر آپ چاہتے ہیں کہ جنسی درندگی ختم ہو فحاشی کے اڈوں کو فوراً ختم کیا جائے۔
کیا ہمارے چینلز جنسی درندگی میں اضافہ نہیں کررہے، صابن کی ایک ٹکیا کھانے پینے کی اشیاء بیچنے کیلئے بھی کیا ایک عورت کو نیم برہنہ کرکے ہمارے چینلز اپنی نسل میں جنسی درندگی کو پروان نہیں چڑھا رہے۔۔؟ مغربی کلچر پر مبنی ڈرامے کیا ہماری نسل میں جنسی بیراہروی پیدا نہیں کررہے۔۔؟
آزادی نسواں کے نام پر نام نہاد تنظیمیں کیا ‘میرا جسم میری مرضی’ جیسے غلیظ نعرے لگا کر جنسی درندوں کے حوس کا سامان مہیا نہیں کررہیں۔۔۔؟
مخلوط نظام تعلیم کیا اس درندگی کا سبب تو نہیں بن رہا۔۔۔؟کیاکم سن عمر کے بچوں کی کمر? جماعت میں خودکشی اس سسٹم سمجھے کیلئے کافی نہیں۔۔۔؟
کیا تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم سے اور تربیت سے محرومی اس کا بنیادی سبب تو نہیں۔۔۔؟ امریکہ جیسا تعلیم میں بنیادی حیثیت رکھنے والا ملک اگر ریپ کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے تو کیا یہ ہمیں اپنے نظام تعلیم کو درست کرنے اور اسے اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے کافی نہیں۔۔۔؟
کیا اہل مذہب اور مذہب سے دوری اسکا سبب نہیں۔۔۔؟ کیا شعائر اسلام کی تضحیک ہماری نسل کو درندگی کیطرف نہیں لے جارہی۔۔۔؟
کیاحدود اللہ اور اسلامی سزاؤں کا مذاق اور انکے نفاذ میں رکاوٹ جنسی درندگی میں اضافہ نہیں کررہا۔۔۔؟
قانون کی عدم فراہمی اور غریب اور امیر کیلئے قانون کی تقسیم میں تفریق اسکا سبب نہیں کیا۔۔۔؟
کیا ہمارا پولیس سسٹم جنسی درندوں کی پشت پناہی کرکے ایسے درندوں کو جنسی درندگی کے موقعے نہیں فراہم کررہا۔۔۔؟ کیا ہمارے تھانوں میں ریپ کی ایف آئی آر کٹوانے والی بیٹی کی عزت تار تار نہیں ہوتی۔۔؟ کیا ہمارے پولیس سسٹم میں اصلاحات کا ناہونا اسکا سبب نہیں۔۔۔؟
کیا انٹرنیٹ پر سرعام فحش مواد تک آسان رسائی اور اس پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نا ہونا جنسی بھیڑیے نہیں پیدا کررہا۔۔۔۔؟
یہ وہ سب اسباب ہیں جن سے ہمارے معاشرے میں جنسی درندگی میں خاطرخواہ اضافہ ہورہا ہے۔یہی وہ جڑیں ہیں کہ جن کے کاٹنے سے ہی اس ناسور کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ممکن ہے، جب تک ان تمام اسباب کا سنجیدگی سے خاتمہ نہیں کیا جاتا پھر آئے دن کوئی نا کوئی زینب ان درندوں کی بھینٹ چڑتی رہے گی۔
ایوان اقتدار میں بیٹھے ذمہ داران سے میری دست بستہ التجاء ہے کہ اب قوم کی بیٹیوں کی عزت آپ کے ہاتھ میں ہے، خدارا ان اسباب کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرکے بنت حوّاہ کو بچا لیجئے۔
خدارا! قرآن و سنت کا نظام، اسلامی معاشرے کا قیام، حدوداللہ اور شرعی سزاؤں کا ترجیحی بنیادوں پر نفاذ عمل میں لایا جائے۔
خدارا! صرف سزا پر بحث کی بجائے ہمیشہ کیلئے عورت کی عزت کے نگہبان بن جائیں۔
میں پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جب ان اسباب کاخاتمہ ہوجائے گا تو وطن عزیز کی ہرزینب اور مروہ بھی محفوظ ہوگی، موٹروے اور جی ٹی روڈ سب عورت کیلئے محفوظ ہوں گی۔
خدارا….! شاخیں نہیں…!!! جڑیں کاٹیں۔