یہ 2015 کا واقعہ ہے میرے اہل و عیال کو شارجہ سے پاکستان کا سفر درپیش تھا، نوکری کی مشغولیت کی بدولت میرے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ میں ساتھ آسکوں، میرے ایک جاننے والے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ پاکستان جارہے تھے،میں نے متحدہ عرب امارات کے سرکاری فتوی مرکز(009718002422) میں رابطہ کرکے اس بابت آگاہی چاہی تو پتہ چلا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسا کرنے کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہے ، البتہ ایک دوسرے امام ( شائد امام شافعی ) کے نزدیک اگر صدیق یعنی دوست امین ہے اور ساتھ میں عورتیں بھی ہیں تو پھر جائز ہے۔ یہ واقعہ مجھے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے موٹروے پر خاتون زیادتی زیادتی کیس بیان پر ہونے والی تنقید کو پڑھ کر یا د آگیا۔
عمر شیخ کے بیان پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے فرمایا تھاکہ اکیلی عورت کو رات کے بارہ بجے گھر سے نکلنے کی کیا ضرورت ہے،اور اگر خاتون نکل ہی پڑیں ہیں تو آبادی والے روٹ پر سفر کریں، اورنکلنے سے قبل پٹرول کو بھی چیک کرلیں۔ یہ بلاگ تحریر کرنے سے قبل میں نے ایک مفتی صاحب سے رابطہ کرکے دوبارہ اس بابت معلومات کیں (کیونکہ آج بروز جمعہ سرکاری فتوی سینڑ بند ہے ) تو انہوں نے فرمایا کہ اگر فاصلہ اتنا ہے جسکو شرعی طور پر سفر شمار کیا جائے (یعنی 48 میل ) تو محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سی سی پی او لاہور نے درست فرمایا، آج ہمارے ہاں یہ ایک روائت بنتی جارہی ہے ہم لوگ جس اللہ کو مانتے ہیں اسی اللہ کےاحکامات پر عمل نہیں کرتے اور جب ہمارے ساتھ کوئی مسئلہ بن جائے تو پھر ہم ریاست اور ریاستی اداروں پر الزام تراشی شروع کردیتے ہیں۔
یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان میں امن اومان کی صورتحال مثالی نہیں، بالخصوص خواتین کے حوالے سے تو صورتحال کی حساسیت ہر ایک کو معلوم ہے، میڈیا کی آزادی کی بدولت ہمیں آگاہی ہے کہ کہ وطن عزیز میں خواتین کس قد ر محفوظ ہیں ، اس کے باوجود اگر ہم لاپرواہی کرتے ہیں ،ا للہ اور اس کے سچے رسول ﷺکی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ، تو پھر یہی کچھ ہوگا جو ہور ہا ہے۔ ہم دن بدن غیر محفوط ہوتے رہیں گے ، میڈیا کے دہائی دینے پر حکومت وقت حرکت میں آئے گی ، کمیٹی بنے گی ، 24 سے 48 گھنٹوں میں مجرموں کو پکڑنے کا دعوی کیا جائے گا، ہوسکتا ہے مجرم پکڑے بھی جائیں، مگر پھر کیا ہوگا، کیا اس سے مظلوم کے دکھوں کا مداوا ہوسکے گا ، شائد نہیں۔
اس لیےضرورت اس امر کی ہے ہم حقیقت کی دنیامیں واپس آجائیں ، ریاست پر انحصا ر ختم کرکے اپنے جان ، مال اور اہل و عیال کے تحفظ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں یقینی بنائیں ۔اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی بقا ہے ،اور آخر میں میری حکومت وقت سے بھی گزارش ہے کہ علما ا کرم کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ اپنے بیانات بالخصوص جمعتہ المبارک کی تقاریر میں عوام الناس کو روزمرہ زندگی گزارنے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کے بارے میں آگاہی دی جائے ، کیونکہ ہمارے دین کا ایک بڑا حصہ معاشرت پر مشتمل ہےجس سے عوام الناس کی اکثریت لا علم ہے۔