میرے والد صاحب بڑے بردبار اور صحت مند ،خاموش طبعیت کے حامل تھے ۔ ہمیں بچپن میں ان سے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ بھی غصہ کرتے تھے اور شرارتوں پر پٹائی بھی کرتے تھے خا ص کر بھائیوں کی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اتنے غصے والے کیوں تھے؟ سگریٹ پیتے تھے اور پان بھی کھاتے۔ اکثر امی سے بحث و تکرار ہوتی تھی لیکن ہمیں سمجھ نہ آتی تھی ۔ بس اتنا معلوم ہے کہ صفائی پسند تھے اور ہر کام وقت پر مکمل ہونا چاہتے تھے۔
امی بھی ان سے بہت ڈرتی تھیں ۔ ہم سات بہن بھائی تھے جب ہم چھوٹے تھے تو یکہ دکہ واقعات ہی یاد ہیں کہ سب ڈرتے تھے جب ابا آفس سے گھر آتے ہوئے ہمیں باہر نہ جانے کیا کیا حرکات کرتے ہوئے دیکھتے ہونگے ۔ ہوسکتا ہے بھائیوں کی محلے کے لڑکوں سے لڑائی یا کسی کے دروازوں پر پتھر مار کر چھپ جانے والی حرکات بہرحال کیونکہ بھائی چھپتے تھے ابا کو دیکھ کر تو ہم بھی چھپ جاتے ۔ کان ابو کی آواز پر لگے ہوتے کہ ناراض یا غصے تو نہیں ، منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدل کر چائے یا کھانے پرآجاتے اس سے معلوم ہو جاتا تھا۔
اگر خوشگوار موڈ ہوتا تو ایک ایک کرکے سب اپنے چھپنے کے ٹھکانوں سے نکل آتے ورنہ ایک زوردار آواز آتی کدھر گیا وہ بلائو اسے بڑے بھائی کو ، پھر ایک ایک جگہ خود ڈھونڈ نکالتے اور سب کو تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ یا مار پڑتی ، کان پکڑواتے توبہ کرواتے پھر جان چھٹتی تھی ۔ ہاں مگر صبح سویرے اٹھنا ، اپنا بستر تکیہ جگہوں پر رکھنا ، گھر کی صفائی اسکول کالج جانے سے پہلے ہو جاتی ۔ پھر شام کو بھی گھر کے برآمدے کی ، صحن اور باہر کی سیڑھیوں تک کی اتنی صفائی ہوتی کہ بلا جھجک سیڑھیوں پر بیٹھ کر نظارے ہوتے ۔
کبھی کبھی بھاگنے دوڑنے کی اجازت نہ ہوتی ، صرف بیٹھے رہو، نظارہ کرو باتیں کرو اور مغرب سے تھوڑ ا پہلے گھر میں آجائو ۔ تھوڑی دیر بعد کھانا ، تھوڑا اسکول کا کام اور پھر سو جانا ، آہستہ آہستہ ہم کالجوں میں آگئے ، ابو کا غصہ کم ہو گیا مگر رعب اب بھی اتنا تھا کہ بلا وجہ غیر ضروری بات ، مذاق تک نہیں کر سکتے تھے ۔ جب ابا خود باتیں کرتے کچھ گا نا، لطیفہ اور قصے سنتے سناتے خا لو ، چچا پھوپھو اور انکے بچوں کی موجودگی میں تو ہم بہن بھائی شامل ہو جاتے مگر وہ بھی سب نہیں جو فرصت سے ہو ورنہ سب کسی نہ کسی کام میں لگے رہتے۔ کو ئی ہوم ورک کر رہا ہوتا تو کوئی روٹی لگوانے ہوٹل گیا ہوتا ، کوئی پانی بھر رہا ہوتا اور ہم بہنیں پڑھ رہی ہو تیں یا روٹی پکا رہی ہو تیں یا چائے وغیرہ بنا کر سرف کر رہی ہوتی تھیں ۔ ناشتہ ، کھانا دوپہر کا ، شام کی چائے سب کام وقت پر ہوتا تھا ۔
خبریں اور اچھے پروگرام خود آواز دیکر دیکھنے کو کہتے تھے ۔ اپنی مرضی سے ٹی وی تک دیکھنے کی اجازت نہ تھی جو خود دیکھتے کبھی دیکھنے دے دیتے اور کبھی کہتے تمہارا کوئی کام نہیں جائو اپنا پڑھو ۔ ہم ان سے انگریزی پڑھتے تو اتنی اچھی طرح پڑھاتے تفصیل سے کہ ہم بس بہت اہم اور کم باتیں ان سے پو چھتے تھے کہ ہمارا وقت زیادہ نہ لگے لیکن مجھے اندازہ ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں یعنی میرے بھائیوں نے پڑھائی پر اتنی توجہ نہ دی اور یوں میرے والد صاحب ان کی طرف سے ہمیشہ پریشان رہتے تھے ۔
بھائیوں اور ہم نے غصہ ان سے لا شعوری طور پر سیکھا مگر منظم زندگی کی اہمیت ، وقت کی پابندی ، چھوٹے بڑوں کا ادب ، صاف ستھرائی ، لحاظ ، تمیز انداز کافی حد تک ان سے سیکھا۔ماں سے پھرتی ، کفایت شعاری صبر و استقامت سیکھی ۔ جو ہماری ازدواجی زندگی میں آج تک کام آتی ہے اور ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنہوں نے اپنے محتاط روئیے سے ہمیں بہت کچھ کار آمد سکھایا ۔ کھانے پینے کی چیزوں میں کبھی تنگی یا کمی کو تا ہی کا شکوہ نہ کیا بلکہ ہمیشہ صبر شکر سے ہر چیز کھا لیتے کیونکہ امی زیادہ تر ان ہی کے ذوق کے مطابق کھانا پکاتیں اور ان ہی کی پسند کے مطابق گرما گرم پیش کرتیں جس کی عادت ہم میں بھی پڑ گئی وہ بھی عزت واحترام کے ساتھ ۔ میرے والد نے ہمیشہ مہمانوں کی بڑی عزت کی ان کو حیثیت سے بڑھ کر کھلاتے پلاتے خوش ہوتے ، توکل غضب کا تھا ۔
آج میں سوچتی ہوں یہی اعلیٰ اقدار ہیں ۔ بڑوں کی عزت ، چھوٹوں پر مہربانی اور شفقت کا انداز ، برائی پر فوری روک ٹوک ہی دراصل ان کا پیار تھا جنہیں ہم نے اپنے تجربے سے سمجھا اور نادانستہ ان سے خفا رہے ۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے اور ہمارے مرحوم والدین کے درجات بڑھائے جنہوں نے ہمیں زندگی کے آداب سکھائے اور منظم زندگی کا وہ نمونہ پیش کیا جو ہم اپنے بچوں کو نہ پیش کر سکے اگر چہ ہم بہت ہی اچھے ماحول میں رہتے تھے اور جوائن فیملی میں بچوں پر زیادہ روک ٹوک نہ تھی تو بچے میڈیا کے مارے بھی تھے لہٰذا ان کے اندر انکے ماحول اور اسکول کے ماحول نے کسی حد تک منظم رکھا پھر میں سمجھتی ہوں وقت کی قدر اور لغویات کا احساس جتنا ہمیں تھا ، ہے انہیں نہیں ہوا مگر وہ اپنے تجربات سے سیکھ رہے ہیں اور فرق بھی محسوس کر رہے ہیں ۔
میرے کزن ایک مرتبہ بتارہے تھے کہ ایک دن انکل نے مجھے فون کیا اور سوری کیا تو میں بڑا حیران ہوااور مجھے اچھا بھی لگا ۔ میں نے کہا انکل آپ کیوں سوری کر رہے ہیں ۔ آپ نے جو مجھ سے کہا ڈانٹا میری بھلائی کیلئے تھا ۔ بولے نہیں تم ما شاء اللہ اب بڑے ہو گئے ہو مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا ان کی یہ بات سن کر مجھے یاد آیا کہ مرنے سے چند ماہ پہلے میں بھی کس بات پر ابا سے ناراض ہو گئی تھی اور نخرہ دکھا کر اپنے میکے سے شوہر کو پٹاکر واپس سسرال آگئی تھی ۔ محض نارا ض ہو کر کہ ابا نے کیوں مجھے یا میرے سسرال والوں کو یوں سمجھا۔ بعد میں امی نے فون پر بتایا کہ اگلے دن ابا کی سالگرہ تھی اور وہ تمہارے بیٹے کی خاطر بڑا سا کیک منگوا کر تمہیں اور تمہارے سسرال والوں کو کھلانا چاہتے تھے ۔ دوسرے ہی دن شام کو ابا نے مجھے فون کیا اور مجھ سے کہا کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں باپ کچھ کہہ دے تو برا نہیں ماننا چاہئے ۔
کیا ہوا جو میں نے کچھ کہہ دیا میں معافی چاہتا ہوں بیٹا ! اور میری تو اتنی بری حالت ہوئی کہ آواز گلے میں پھنس گئی اور آنسو تھے رکنے کا نام نہ لیتے تھے جس پر وہ کہنے لگے روتی کیوں ہو؟ سمجھ جائو گی گویاوہ میری کیفیت جانتے تھے میں نے بڑی مشکل سے انہیں کہا نہیں ابامیں آپ سے ناراض نہیں ، پھر مجھے اپنے شوہر پر بھی تھوڑا غصہ آیا کہ انہوںنے کیوں میری بات مانی مجھے سمجھانا چاہئے تھا کہ باپ سے ناراض نہیں ہوتے میری کیفیت بھی ذرا نازک تھی لہٰذا میں جذباتی ہو گئی تھی پھر دوسرے دن وہ خود مجھ سے ملنے چلے آئے ڈھیروں پھل لے کر چائے دی تو شکریہ ادا کیا ۔ میں نے کہا ابا آپ شکریہ کیوں کہہ رہے ہیں کہنے لگے بیٹا تمہیں سکھانے کیلئے اور واقعی اس وقت میں سمجھی کہ چھوٹوں کو بھی معمولی باتوں پر شکریہ جزاک اللہ کہنے سے انکو بھی اور ہمیں بھی کتنی خوشی ہوتی ہے بہر حال ماں باپ واقعی ایک ایسا دیوان ہوتے ہیں ۔ ایسی درسگاہ جہاں سے انسان پل پل کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی رہتا ہے اور یہی سیکھنے سکھانے کا عمل زندگی کا حسن بلکہ میرے نزدیک عبادت ہے ۔
شادی کے بعد ملنے والے والدین ساس سسر کے روپ میں وہ بھی ایک ایسی کھلی کتاب ہوتے ہیں جنکا ہر لفظ تجربے میں ڈوبا ہوا حقیقت زندگی سدھارنے کیلئے ہوتا ہے بس قدر کرنا آنی چاہئے ۔ اللہ خود آپ عزت عطا فرماتا ہے اور یوں دیئے سے دیا جلتا ہے اور ایک مہذب معاشرہ آگے بڑھتا ہے ۔ ظاہر ہے وقت اور بڑی عمر کا تجربہ چھوٹوں کو ہر گام ملتا ہے مگر جولوگ اچھے تجربوں ، واقعات سے فائدہ نہیں اٹھاتے ، سبق نہیں لیتے کہیں نہ کہیں مار کھاتے ہیں ۔ شکر اللہ پاک کا جس نے ہمیں جنم دینے والے بہترین والدین عطا فرمائے اور شعوری طور پر جوانی میں ملنے والے والدین(ساس سسر) جیسے معزز انسان دیئے اور بچپن سے لیکر بی ایڈ تک اور اسکے بعد آج تک بھی روحانی تعلیم دینے والے والدین اساتذہ کی شکل میں دیکر ہمیں معزز شہری بنایا ۔
اللہ پاک ان تمام والدین کو جزائے خیر دے ۔ جنت میں ان کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ہماری نسلوں کو دین پر عمل پیرا ہونے والے مہذب با اخلاق اور با کردار افراد بنائے ۔ جو تیرے پسندیدہ دین کے داعی ہوں اور دین و دنیا میں عافیت پائیں ۔ آمین یا رب العالمین۔ ان سے جو بھی غلطیاں دانستہ یانا دانستہ ہو گئی ہیں دین کی تعلیمات ہم تک پہنچانے میں اللہ پاک اپنے کرم سے انہیں معاف فرمادے او ر انکو اولادوں کو وہ حکمت اور دانائی عطا فرما کہ اس کمی کو نہ صرف پوراکریں بلکہ جو کچھ سمجھ میں آرہا عمل میں نہیں اتر رہا اسکا سمجھنا عمل کرنا اور آگے بڑھانا آسان فرمادے کہ تو غالب ہے حکیم ہے علیم ہے ، تیری ذات سب سے عظیم ہے اور تو ہی تمام تعریفوں کے لائق ہے پس ہمیں پستی سے نکال اور اعلیٰ مقام ، اعلیٰ کردار ، اعلیٰ منصب عطا فرما کیونکہ تو ہی دینے والا ہے ۔ آمین یا رب العالمین