موٹروے پر ہونے والا واقعہ اگرچہ قابل مذمت ہے۔مگر تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی نتیجہ نکالنا چاہیےپاکستانی قوم کی تاریخ ہے کہ واقعہ برپا ہوتے ہی بغیر تحقیق اور چھان بین کے دوڑ پڑتے ہیں،ہر بندہ اپنی اپنی ہانکتا ہے،لمبی چوڑی تقریریں کی جاتی ہیں،احتجاج ہوتے ہیں،میڈیا کو بھی کچھ دن کے لیے ایک برننگ ایشو مل جاتا ہے،کچھ ضروری مگر بے ضرر سےفیصلے کیے جاتے ہیں،کچھ بے گناہوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔جن کے کیس کو معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔! پھر آئندہ ہونے والے کسی سانحہ تک کے لیے لئے خاموشی اور خواب غفلت کے مزے۔۔۔!
اس واقعہ کے برپا ہونے کے بعد ہمیں چند امور پر غور کرلینا چاہیے۔ساری ذمہ داری حکومت کی نہیں، عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔ہر ایک اگر اپنی ذمہ داری بروقت ادا کرے تو مسائل کم سے کم ہو جائیں گے۔
1)سفر کے لیے اسلام نے جو اصول مقرر کر دیے ہیں ہمیں بہرحال ان کی پیروی کرنی چاہیے،ایک مکمل اسلامی اصلاحی ماحول کے اندر جہاں اسلامی قوانین کی پیروی کی جارہی ہو وہاں پر بھی سفر کے اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے،کیوں کہ ایسے معاشرے میں بھی شیطان صفت لوگوں کی موجودگی کا امکان ہوتا ہے اور اچھے بھلے نیک صفت انسان کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی ۔اور پھر اس حال میں کہ جب انسان کے پاس قیمتی زیورات، نقدی اور معصوم بچوں کا ساتھ ہو۔ایسے سفر کا رسک نہیں لینا چاہیے۔یہ حقیقت ہے کہ انسان دن دیہاڑے بھی لٹ سکتا ہے۔ جو پریشانی اور نقصان مقدر میں لکھا ہے وہ آکر رہتا ہے،مگر احتیاطی تدابیر اختیار کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
2) ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لٹنے والوں کی مدد کرنے کے لیے کوئی نہیں پہنچتا، لوگ آنکھیں جھکائے پاس سے گزر جاتے ہیں،سب کو اپنی جان اور عزت بچانے کی فکر ہوتی ہے۔۔دن دہہاڑے لوگ کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں،بالفرض کوئی زخمی ہوگیا ہے اس کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے کی بجائے اس کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو جائیں گے ، پولیس کا انتظار کریں گے یا پولیس کیس بن جانے سے ڈریں گے۔ یا زخمی کی جیبیں ٹٹول کر رقم بٹورنے کی کوشش کریں گے۔اس قوم نے زلزلے میں دب جانے والے لوگوں کی کلائیوں سے گھڑیاں اور سونے کی چوڑیاں بھی اتاری ہیں۔ قوم کو بحیثیت مجموعی یہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ موقع پر ظالم کا ہاتھ پکڑنے اور مظلوم کا ساتھ دینے کی اخلاقی جرت پیدا کرنی ہوگی۔
3) ایسے واقعات کے پیچھے تربیت کی کمی بہت بڑا مسئلہ ہے, میرے نزدیک وہ عورت آج بھی اسی طرح پاک اور قابل احترام ہے, اس کی عزت میں کوئی کمی نہیں آئی .. اس واقعے میں گرفتار ہونے والے لڑکوں کی تصویریں بار بار میڈیا پر دیکھ کر اس بات کی پریشانی محسوس ہوتی رہی کہ ان کے والدین پر کیا گزری ہوگی۔اولاد کو بڑی منتیں اور مرادیں مانگ کر لیا جاتا ہے،پھر اولاد کو پالنے اور پوسنے کے لئے والدین بڑے مشکل مراحل سے گزرتے ہیں،ان کے مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہیں۔اور اولاد جب اس طرح کے اعمال کرتی ہے اور والدین کے چہرے پر کالک ملتی ہے تو ساری عمر کی ریاضت خاک میں مل جاتی ہے۔ جو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑے ،ایسی اولاد کا کیا فائدہ۔۔
اس لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت میں کسی قسم کی نرمی اور لاڈ پیار کو حائل نہ ہونے دیں۔انہیں مذہبی تعلیم سکھائیں مسجد جانے کی عادت ڈالیں اخلاقی تربیت کریں۔اور خاص طور پر ان کو موبائل جیسی لعنت سے بچانے کی کوشش کریں۔
4) ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ مضبوط قوانین بنائے،عدلیہ آزاد ہو۔اس کے فیصلوں پر کوئی طاقت اثرانداز نہ ہو سکے،مجرم کو بروقت اور جرم کی صحت کے حساب سے سزا دی جائے ،اس کو چھڑوا کر لے جانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
اس کے علاوہ ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بے روزگار نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ حل کرے،ان کے لئے باعزت زندگی گزارنے کا کوئی وسیلہ پیدا کرے۔تاکہ وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے لوٹ مار ،قتل و غارت اور دیگر انتہائی قبیح افعال سرانجام دینے سے باز رہیں۔
محض منہ سے ریاست مدینہ، ریاست مدینہ کی تسبیح کرنے سے ریاست مدینہ نہ تو بن سکتی ہے اور نہ ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جیسا حکمران مل سکتا ہے۔ جس نے بے روزگاروں، دودھ پیتے بچوں کو وظائف بھی دیے ہیں۔اور سرعام آوارہ پھرنے والے نوجوانوں کے بال بھی کٹوائے ہیں اور ان کو درے بھی لگائے ہیں ۔شراب پینے والوں کو کوڑے بھی لگائے ہیں ۔عیاشی کرنے والوں کو جرمانے بھی کیے ہیں ۔خواتین کو بھی بلاوجہ گھر سے نکلنے سے منع کیا ہے، ان کو ان کا مسجد میں نماز پڑھنا بھی پسند نہیں تھا۔ وہ ایک دور اندیش حکمران تھے۔ ایک گہری فراست کے مالک تھے۔ یہ اسی امیرالمومنین کا دور تھا کہ جب ایک عورت مدینہ سے حضرموت کا سفر اکیلے کرسکتی تھی اور اس کو خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوتا۔۔
ایسا ہماری آج کی اس ریاست مدینہ میں ممکن نہیں ہے اس کے لیے آپ کو انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے قوانین نہیں بلکہ خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرنا پڑے گا ۔۔