“چلو چلو کراچی چلو”


مسئلہ ہی کوئی  نہیں ۔کھائیں گے ، پیئیں گے عیش کریں گے ۔ہیں جی۔صبح شام بڑے  دسترخوان لگتے ہیں ۔نیکی کمانے کو، صدقہ خیرات ۔پر ہمیں کیا ؟کراچی میں بھوکا تھوڑی کوئی سوئے گا۔دوست یار چلتے ہیں۔نقصان بھی کوئی نہ۔پڑاو کا بھی مسئلہ نہیں۔چارپائی ملے توخیر نہ ملے  تو بھی خیر ہی خیر۔کوئی کونہ پکڑلو۔ آفت قیامت آئے تو ملک واپس پلٹ جائیں۔دیھاڑی نہ لگے تو بھی نقصان نہیں۔
حرام خوری عروج پر ۔محنت کون کرے۔بغیر محنت موجیں ۔یہ سلسلہ فلاں کا دستر خوان فلاں کا دسترخوان،حد ہوگئی۔مزدوری سے جی چرانے کا مزا سر چڑھ کر بولنے لگا۔
کچھ اندازہ ہے؟ کیا رنگ لائے گا رفاہی ڈھابوں کا عتاب ؟کس ڈھنگ سے ہجوم جمع ہوجائے گا۔جب محنت کرنے کی عادت نہیں ہو تو باقی ضروریات کے لیے موبائل فون چھینے جائیں گے۔نامعلوم پیٹ بھری ڈکیتی کتنی جانیں لے گی۔مست ملنگ گلیوں میں پھرتے وجود کس معصوم بچوں کو اٹھالے جائیں گے۔ کچھ حیا کرو کراچی میں جم غفیر جمع کرنے والو۔انھیں کام دو ۔ٹاسک دو ۔روزانہ دو گلیوں کی صفائی کی ذمہ دراری دو۔سڑک کا کچرا صاف کرنے کا کہو تب کھانا دو۔
ایسے ہی حالات رہے تو ملک کا سارا کچرا مسلط ہوجائے گا پھر  اس پڑاو کا خمیازہ سب بھگتیں گے۔کراچی بھگتے گا۔۔اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے کی نیت سے دینے والو سوچ سمجھ کر صدقہ و خیرات دو تاکہ بہت سے زندہ لوگ مرحوم ہونے سے بچ جائیں۔بھوکے کو کھانا کھلانا بہت ثواب ہے مگر اگر بھوکا محنت کے بغیر کھانے کا عادی ہوجائے۔پیٹ بھری  انگڑائی لے کر مشن پر نکل جائے تو پھر خود کو بری ذمہ قرار مت دینا۔