جی ہاں مسلم معاشرے کی بنیاد “حیا “ہے ۔ میں نے خود اپنی سروس کے دوران یہ بات بار بار نوٹ کی مردوں میں بھی عورتوں میں بھی کہ وہ لباس، عادات اطوار یہاں تک کے الفاظ اور انداز میں بھی حیا کا پاس نہیں رکھتے ۔ گویا انہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا برا کر رہے ہیں اور اگر معلوم ہے تو دین کا علم اور شعور ہوتے ہوئے بھی ایسا کر رہے ہیں تو گویا وہ معاشرے کے بگاڑ کے ذمہ دار ہیں ؟ قرآن و حدیث تو حیا کو مسلم معاشرے کی بنیاد ثابت کرتے ہیں تو اس لحاظ سے جتنی حیا ایک بچی یا مدرسہ میں ہو گی اس سے کہیں زیادہ حیا ایک معلمہ اور ایک استاد میں بھی ہونی چاہئے ۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ کیا ! زیادہ تر خواتین اساتذہ میڈیا کی ماری فیشن پرست کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتیں ! شمیز سے آدھی چاکیں کھلی گریبان کھلا دوپٹوں سے لا پرواہ یا بلا دوپٹہ سر جھاڑ منہ پھاڑ مطلب میک اپ اور بالوں کے اسٹا ئل کے ساتھ اگر صرف عورتوں میں یہ بات ہو وہ بھی اساتذہ تو تمام طالبات بھی ویسی ہی ہوجاتی ہیں ۔ رول ماڈلز کو دیکھ کر بالکل اسی طرح جو مرد حضرات اساتذہ کے طور پر آتے ہیں ان کے اندر بھی سب سے پہلے لباس وضع قطع رویہ انداز اسٹائل اور بھرپور نالج مضمون پر عبور ہونا چاہئے صرف خانہ پوری کیلئے نہیں ۔
جینز پہن کر کھلے گریبان شوک رنگوں کی ٹی شرٹ اور بے تکے حلیے جن کو دیکھ کر بھی نفرت آئے ۔ چین ، لاکٹ ، ہاتھوں میں کڑے یا ربن وغیرہ کبھی ایک استاد کی نمائندگی نہیں کر سکتے! میں نے خود دو نئے آنے والے مرد حضرات کو جو نئے نئے ٹیچر بنے تھے۔ وہ بھی لڑکیوں کے اسکول میں دو چار بار انہیں مصلحتاً روکا ٹوکا ، لباس پر انداز بیان پر ، بری زبان اور کچھ حرکات پر توشکر اللہ کا وہ درست ہوگئے تھے ۔ مگر لڑکیوں کے اسکول میں تو مرد حضرات کو بھیجنا ہی نہیں چاہئے تھا مگر وہی بات ہمارا ملک بھی حیا کی کمی کا شکار ہے ۔ اس لئے ایسا ہور ہا ہے ۔ اوپر سے نیچے تک سدھار کی ذمہ داری عوام کے ساتھ حکومت کی بنتی ہے ۔
الحمد للہ ہمارے اساتذہ کو معاشرے کی یہ بنیاد معلوم ہے ۔ مگر بہت کم ، ہمیشہ کم لوگ ہی شکر گزار اور درد رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ فائدہ ہزاروں کو دیتے ہیں ۔ آج ہی میں ایک جگہ پڑھ رہی تھی کہ واقعی گھر بھی ایک مکمل درسگاہ ہے اور والدین بہترین استاد گھر کا ماحول گھٹی میں رچ بس جاتا ہے ۔ جیسا کہ فرض کریں عورت کو حیا کی سوجھ بوجھ کم ہے تو مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھے ۔ عورت کا احترام کرتے ہوئے اپنی عورتوں کو سکھائے سمجھائے عمل کر وائے نہ صرف عورتوں کا بلکہ خود ہی غصِ بصر کا ہی نمونہ بن کر اپنے بیٹے کا منہ دوسری سمت پھیر کر بالغ بیٹے کو شعور دے کہ بیٹا پہلی نظر معاف دوسری گناہ ہے۔ آج کل تو بیٹے باپو ں کے ساتھ وقت ہی نہیں گزارتے نہ باپ اتنی ان پر توجہ دیتے ہیں ۔
اگر خواتین حدود کی خلاف ورزی کر رہی ہیں تو والدین اور اساتذہ اپنا کردار، سدھاریں تربیت اپنے ہی رول ماڈلز سے دیں ہماری چند اساتذہ کے ہم آج تک شکر گزار ہیں جنکی سادگی محنت اور حیا نے ہم پر بھی اپنا اثر ڈالا اور الحمد للہ آج ہم اپنے کچھ اسٹوڈینٹس کو دیکھتے ہیں با حجاب با حیا تو لگتا ہے آج میرا رزلٹ آیا ہے۔ واقعی مجھے دنیا وی عہدوں پر فائز اسٹوڈنٹس سے زیادہ وہ عام اسٹوڈینٹس متاثر کرتی ہیں جو حجاب میں ہوتی ہیں اور مجھ سے آکر ملتی ہیں ۔ باقیوں کیلئے میں ہر دم دعا کرتی ہوں کہ اللہ پاک انہیں بھی سمجھ دے توفیق تو رب ہی بندے کی تڑپ طلب اور لگن پر دیتا ہے ۔
جب میرا بیٹا آ ٹھویں نویں میں پڑھتا تھا اور مہمانوں کے آگے اگر میں جا ئوں تو کہتا تھا امی سر پر دوپٹہ مجھے بھی واقعی بہت اچھا لگتا تھا پھر ایک ساتھی نے مجھے عبایا دیا اور دیا ہی نہیں بلکہ اپنے ہاں دعوت کرکے عمرے کے تحفہ کے طور پر عبایا لا کر مجھے پہنایا کہ باجی آ پ پر یہ اچھا لگے گا تو میں نے بھی اس دن سے عبایا پہننا شروع کیا اور الحمد للہ آج تک پہنتی ہوں اللہ استقامت فرمائے ۔ آمین ۔ مگر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فرق پڑتا ہے ۔ ایک استاد اچھی تبدیلی لا کر معاشرے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے ۔ بس اچھی سچی اور نیک سوچ اور عمل کی ضرورت ہے ۔ دنیا کو نہ دیکھو وہ کیا کہے گی ؟ اپنے عمل کو دیکھو! کہ رب کی نگاہ میں قبول ہو جائے گا تو نتیجہ مجھے اس سے چاہئے دنیا سے نہیں ۔ اس بات کو ہمارے اساتذہ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ ان کی اتنی عزت اور احترام طالب علموں کی پرکھ پر ہی تو ہوتا ہے انہیں بھی رب نے شعور دیا ہوتا ہے وہ آپکی صحیح جانچ کرسکتے ہیں اور نا کامیابی کا ذمہ دار آپ کو ٹھہرا سکتے ہیں ۔
صرف دنیا ہی میں نہیں آخرت میں بھی تو پھر اساتذہ کو انکی پوری طرح خبر رکھکر تربیت کے ساتھ تعلیم دینی چاہئے کہ معلم کا کام صرف ایک وقتی کام یا سال بھر کا انعام نہیں بلکہ نسلوں کی آبیاری کرنا ہے جو بڑا بہت ہی بڑا منصب ہے ۔ رب کا عطا کیا ہوا ہے۔ آپکا اور ہمارا سب سے بڑا امتحان ہے ۔ آخرت کیلئے تو ہر لمحہ فکر اور جواب دہی کا احساس لئے ہوئے ۔