یہ ہے جنت نظیر کشمیر
جہاں بلکتے بچے سسکتی مائیں لٹتی عصمتیں
ایک ہی دعا مانگتی ہیں کہ یا رب بھیج دے کوئ عمر بن خطاب
کوئ صلاح الدین ایوبی
کوئ محمد بن قاسم
کوئ ایسا جو ہمارا بدلا لے
جو کافروں کا بتادے کہ غیرت مسلم زندہ ہے ابھی
تم آنکھ اٹھاؤگے جو ہماری طرف
ہم وہ آنکھ پھوڑ ڈالیں گے۔
لیکن کیا ہوتا ہے
صرف یہی کہ آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں
کان بند کرلۓ جاتے ہیں
کیوں کہ وہ ان کا مسئلہ ہے
ہم کیوں دوسروں کی آگ میں کودیں؟
ہم کیوں جان جوکھوں میں ڈالیں؟
نوجوانوں کیا بھول گۓ ہو محمد ؐ کو
کیا بھول گۓ صحابہ کو
کیا بھول گۓ حاتم طائ کی بیٹی کو کہ کیا سلوک کیا تھا پیارے آقاؐ نے ان کے ساتھ
یا اسلاف کی سیرت بھلا بیٹھے ہو؟
کیا بھول گۓ ہو حجاج بن ہوسف جیسے ظالم بادشاہ نے بھی ایک لڑکی کی فریاد سن کر گھوڑے دوڑا دۓ تھے
کیا بھول گۓ ہو بی اماں کا بیٹوں کو کہنا کہ بیٹا کافروں کے آگے جھکے تو میں ان ہاتھوں سے تمہارا گلہ دبادوں گی
کیوں کہ ان بوڑھے ہاتھوں میں ابھی جان باقی ہے۔
اللہ نے ہمارے سخت چٹان جیسے دل دیکھ کر اپنے محبوب ؐ کی امت کو اتنی لٹی پھٹی حالت میں دیکھا جب۔
تو کہا کہ وہ تو ان کا مسئلہ ہے ۔
ان کی لڑائ ہے
ان کی جنگ ہے
ان کی بیٹیاں ہیں
مائیں ہیں
بہنیں ہیں
بیویاں ہیں
تو اب اس ملک کا حال دیکھ کر ہی غیرت دکھا دیتے۔
کیوں کہ یہ تو تمہارے ہیں
تمہارا وطن ہے
تمہاری بیٹیاں بہنیں مائیں بیویاں ہیں
دکھا دو نا کہ جو کہتے ہو کہ غیرت مسلم زندہ ہے
کیوں سوۓ ہوۓ ہو جاگو نا
اب تو آجانی چاہۓ سمجھ
کھل جانے چاہئیں کان
آنکھیں بھی
دل میں درد اٹھ نا چاہۓ جہاد کا
آہ۔۔۔
عرش بھی رویا ہوگا۔
اتنی بے حسی پر۔
اتنی غفلت پر
خدارا اٹھ جاؤ اب تو
جاگ جاؤ غفلت کی نیند سے
ایک بار سوچا کرو کہ روز محشر آقاؐ کو کیا منہ دکھاؤگے
کیسے نظریں ملاؤگے
کیسے جواب دوگے جب وہ پوچھیں گے کہ میری امت کٹتی رہی بلکتی رہی سسکتی رہی روتی رہی تم نے کیوں کچھ نا کیا کیوں ؟؟؟
کیوں چھوڑ دیا مظلوموں کو۔
ایک بار سوچنا ضرور کہ کیا جواب دوگے انہیں
شاید
کے تیرے دل میں اتر جاۓ میری بات۔۔