میں جب نئی نئی اسکول میں گئی تو سو چا سارے ارمان نکالو نگی ، خوب کپڑے پہنونگی ، جیولری ، چوڑی اور تھوڑا میک اپ ڈر تو میں شروع سے رکھتی تھی ۔ ڈر ڈر کر جب بی ایڈ میں تھی تو وہاں جوائنٹ سسٹم تھا مگر پھر بھی لڑکوں کے ساتھ بلا ضرورت کبھی بات چیت نہ ہوتی تھی ۔ بس اتنا معلوم تھا کہ یہ ہماری کلاس کے ہیں ۔ کبھی کچھ پوچھنا بھی ہوتا تو سب کے سامنے لمحے دو لمحے کیلئے کلاس یا کام سے متعلق یا کسی پروگرام سے متعلق کوئی بات سب کے سامنے پوچھتے تھے بالکل آزاد نہ تھے کبھی کسی کے ساتھ آنے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
پھر شادی کے بعد جب اسکول ٹیچر بنے تو لگا اب مکمل آزادی ہے اپنے آپ کو سجا سنوار کر نکل سکتے ہیں مگر ایک چھوٹے بیٹے اور بھرے سسرال میں اتنا بھی وقت نہ تھا کہ لوازمات کرتے ۔ ہاں مگر ہر نیا جوڑا چوڑی بند ہ یہاں تک کہ کلپ تک اترا اترا کر دکھانے کیلئے اسکول پہن کر جایا کرتے تھے۔ پھر اسکول میں بھی کیا کچھ نہ دیکھا ، دو طرح کے طبقے تھے ۔ سادہ اور بے لوث لوگوں کو بہت احترام سے دیکھتے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ۔ بچوں کو اچھے سے اچھا ان کے کورس کے مطابق پڑھاتے ، صرف اگر اسلامیات کے پیریڈ ملتے تو بڑا مزہ آتا اور بڑی آسانی سے کلاس کو کنٹرول میں رکھ کر بہت ہی دلچسپی سے پڑھاتے اور نہ جانے کیوں سکون پاتے۔
آہستہ آہستہ چند ایسے غیر شادی شدہ مگر بڑی عمر کی اساتذہ سے واسطہ پڑتا تو ہمیں اپنا آپ بہت حقیر اور چھوٹا لگنے لگتا مگر حیرت ہے ہم صرف مخصوص موقعوں پر چادر لیتے ورنہ بڑا سا دوپٹہ ۔ ڈیلوری کے بعد پھر چادر اترجاتی ۔ حیرت ہے کہ ہمیں کیوں کسی نے اس سے نہ روکا ؟نہ ٹوکا؟ اگر کوئی روکتا تو ہم ضرور بات مانتے ، یہاں تک کہ شوہر بھی نہیں ، حالانکہ انکے ساتھ موٹر سائیکل پر جاتے تھے مگر وہ بھی نہیں روکتے تھے البتہ کبھی شادی وغیرہ میں جانے کیلئے تیار ہوتے تو فوراً کہتے چادر نہ لوگی؟ تو پھر میں چادر لے لیتی مطلب کوئی خاص اہمیت نہ دیتی تھی ہاں مگر ایرے غیرے کے سامنے آتے جھجکتی تھی ۔ خاندان میں بھی کوئی زیادہ روز زبردستی نہ تھی۔ سسرال میں بھی عجیب ماحول تھا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے اور پچھلے گزرے ہر لمحے پر افسوس اور ندامت ہے ۔
اسکول میں تو پھر بھی کافی اچھا ماحول ملا ۔ گورنمنٹ اسکول تھا مگر 20، 22 اساتذہ میں سے دو چار ذرا فیشن ایبل تھیں ۔ ہر طرح کا فیشن ، کھلے اسٹائل کے بال مگر اپنے کام میں بھی استاد تھیں ۔ اسکولز میں تو ہم ہر وقت ہر طرح کی قابلیت بڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو کنٹرول کرنا اور اپنی طرف متوجہ رکھنے پر زیادہ توجہ دیتے تھے کہ انکا نصاب پورا ہو جائے مگر ساتھ ساتھ بے ایمانی اور چوری چکاری ، بدتمیزی پر بھی نظر رکھتے ۔ تعاون اور رحم دلی سے بعض کمزور بچوں کو زیادہ اہمیت دیکر انکی کمزوریوں کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتے ۔ اس دوران ہم نے اکثر بچوں کے والدین سے بھی بہت کچھ سیکھا۔
پھر ایک دوسرے اسکول سے واسطہ پڑا جس میں تقریباً 60اساتذہ کا اسٹاف تھا اور کچھ حضرات بھی تھے ۔ ماحول کافی اچھا تھا ۔سینئر ٹیچر ز کا ٹیبل الگ تھا۔ بہت پیارا بہت اعلیٰ ۔ ہر ٹیچر مہذب شائستہ اور اپنے عمل میں ماہر ۔ کیا لباس ، کیا انداز کیا ادائیگی ! واقعی قابل تقلید ! ہم ڈرتے تھے ادب سے انکا احترام کرتے اور ان کی ہر بات مان کر ان جیسا بننے کی کوشش کرتے۔ پھر آہستہ آہستہ ماحول میں فیشن کا اثر آتا گیاوہ لوگ بھی آہستہ آہستہ ریٹائرڈ ہوگئے اور نئے آنے والے مزید آزادانہ ماحول اور انداز میں بے باک سے لگتے تھے یا شاید ہم غلط سمجھتے ہوں ۔بہرحال تبدیلی دو طرح کی تھی ایک تو ذرا حجاب اور عبائے والے اور دوسرے ذرا فیشن ایبل مگر بہرحال اسکول اچھا چل رہا تھا بلکہ وہ کالج بھی بن گیا اور اچھا رہا ۔ الحمد للہ
بڑی خوشی محسوس کی کیونکہ یہی حیا ہے ۔ ان باتوں کے ذکر کا ابھی موقع نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے مردوں کو بھی حیا کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنے اہل خانہ کے کفیل ہیں ، رعیت لئے ہوتے ہیں تو ان کے اندر بھی دین کی سوجھ بوجھ ہونی چاہئے ۔ پردے اور حجاب سے واقفیت ہونی چاہئے کیونکہ اس طرح انکی اپنی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے ۔ میرا مقصد اپنے بھائیوں کی دل آہ زاری نہیں بلکہ بیداری فراہم کرنا ہے اگر آج بھی میں اپنی غلطی کو مان کر قرآنی تصدیق کرکے ، قرآن کو اپنا راہنما بنا کر عملی اقدام خود بھی کریں اور اہل خانہ کو ان آداب کا پابند بنا کر انسان کو حیوانیت اور درندگی سے بچا کر ایک نظام حیات اور ایک نیک خصلت تہذیب دیں کیونکہ رب نے ہماری تہذیب اور نظام زندگی کے اندر حیا ودیعت کی ہے۔
نیچی نظریں رکھنے والے مرد اور خواتین کو بھی نظریں بچا کر رکھنا اور اپنی تعظیم اور تحفظ کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور زینت کو نہ دکھاتی پھریں ۔ تمام حضرات یہ پسند تو کرتے ہیں عمل کرنا اور کروانا بھول جاتے ہیں ۔ اب جائزہ لیں کہ میرے بھائی ایسے کتنے ہیں جو اپنی مائوں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کو کس طرح بے حجاب معاشرے میں چھوڑ کر گناہ کاارتکاب کرتے ہیں اور فخریہ کرتے ہیں کہ ہم ماڈرن ہیں ۔ نہیں ہم ماڈرن نہیں بلکہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے ہیں اور معاشرے کو بگاڑ کا ذریعہ بناتے ہیں تو ہمیں یہ رویہ بدلنا ہو گا اور حیا کی قدروں کو سمجھنا اور سمجھانا ہو گا۔ یہ کام حوصلہ افزا اور معروف ہے یقینا آ پ پر سکون اور پر وقار ہونگے اور اپنی خواتین کو مستورات بنا کر دینی اور دنیاوی حق ادا کرینگے ورنہ یقین مانئے آپ خود نہ صرف عورتوں کی تو ہین کر رہے ہیں بلکہ خود بھی گنہگار ہورہے ہیں۔
ساتر لباس فیشن ایبل لباس پہنا کر ان کے اخلاق بگاڑ کر انہیں خود بے حیا بنا کر معاشرے کے بگاڑ اور فساد کے اور ہزارہا برائیوں کے مستحق ٹھہرتے جو سراسر زوال ہے بگاڑ ہے ۔ کاش آج بھی میرے بھائی حیا کے حقیقی مفہوم سے واقف ہو جائیں اور اپنا فرض نبھائیں تو یہ معا شرہ یہ گھر ، یہ خاندا ن اور یہ دنیا امت مسلمہ پر فخر کرے گی ۔ انشاء اللہ کیونکہ حیا سراسر بھلائی ہے اور اسکا ٹھکانا جہنم نہیں جنت ہے ۔ مجھے اپنے بزرگوں، بھائیوں اور بڑوں پر بہت افسوس ہے جنہوں نے ہمیں حیا کا صحیح وقت پر صحیح شعور نہ دیا مگر الحمد للہ جو حیات ہیں انکے پاس ابھی سدھار کا موقع ہے اور جو حیات نہیں ہیں ۔ میرے عزیز رشتہ دار ماں باپ ، ساس سسر، جیٹھ جیٹھانی اللہ پاک ان کی اس خطا کو جو انہوں نے دین سکھانے سمجھا نے میں کی معاف فرماد ے اور ان کی بہترین مغفرت کردے ۔
پاک پروردگار تیرا کرم ہے کہ تو نے ہمیں ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرنے والا ہی بنایا اور ہمیں اس کا شعور دیا ۔ یا رب انہیں معاف فرما اور ہماری نسلوں کی بہترین رہنمائی فر ماکہ تیرے دین پر چل کر اس کے علمبردار بنیں ۔ آمین ۔ اللہ تو واقعی ولی ہے میرا سچا دوست ہے ۔ میری یہ دعا رد نہ کرنا میں بہت گنہگار ہوں مگر تیری رحمت سے پر امید ہو کر اپنے مرحومین کیلئے اور زندہ تمام ساتھیوں کیلئے حیا مانگتی ہوں ۔ عافیت اور عاقبت مانگتی ہوں تیری دین بڑی ہے تو جنت الفردوس دینے پر قادر ہے ۔ موت سے پہلے ہمیں بخشش دے ، مرحومین کو بخش دے اور اپنی راہ کہ لگا لے کہ یہی دل کی مراد ۔ آمین