اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونسیکو کے تحت عالمی خواندگی کا دن ہر سال 8ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ تاکہ دنیا بھر کے کروڑوں مرد وخواتین اور بچوں کو خواندگی کی امید دلائی جا سکے جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔ 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ناخواندہ افراد کی تعداد 780 ملین سے زائد ہے جس میں 496 ملین خواتین ہیں۔
ہم جس دین کے پیرو ہیں اس کی ابتداء ہی *”اقرا”* سے ہوئی ہے۔ تعلیم کے ابتدائی ادارے دارارقم اور صفہ کے چبوترہ تھا۔نہ صرف مردوں کے لئے بلکہ عورتوں کے لئے بھی علم حاصل کرنا فرض کر دیا۔ یورپ جس وقت تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ مسلمان سائنس دان فلکیات،طب، کیمیا، ریاضیات میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات تھیں۔ اگر ہم قرآن کا بغور مطالعہ کریں تو 700 سے زائد آیات مظاہر قدرت کے حوالے سے ہیں۔قرآن بار بار اپنے اردگرد نظر دوڑانے کی بات کرتا ہے کائنات کے اسرار سمجھاتا ہوا خالق سے جا ملاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کی زیادتی کی دعا کی تعلیم دی ہے، فرمایا
﴿وقل رب زدنی علماً﴾”اور کہیے اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما“
۔امام قرطبی رح لکھتے ہیں کہ ”اگر کوئی چیز علم سے افضل اور برتر ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتے کہ وہ اس میں اضافہ کی دعا کریں،جیسا کہ علم طلب کرنے کا حکم دیاگیا ہے“۔ یعنی رب کائنات کی نظر میں بھی سب سے زیادہ اہمیت علم ہی کی ہے۔
اسی طرح علم والوں کو قرآن میں فرمایا
”اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان لوگوں کے، جن کو علم عطاہوا ہے،درجے بلند کرے گا“
۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”علماء اور عام مسلمانوں سے سات سو درجہ فوقیت رکھتے ہیں، دو درجوں کا فاصلہ پانچ سو برس کی مسافت ہوگا“۔اس سے اہل علم کی فضیلت اور ان کے بلند مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ قرآن میں علم کا ذکر اسی ۸۰ بار اور علم سے نکلے ہوئے الفاظ کا ذکر سینکڑوں بار ملے گا۔
حصول علم کے راستے کےسیکھنے والے اور سکھانے والوں کے لئے کتنی خوبصورت بشارتیں ہیں ملاحظہ ہوں:
اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔“(بخاری )
ایک روایت میں ہے کہ ”فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اس کے کام سے خوش ہوکر۔ اور عالم کے لیے آسمانوں اور زمین میں ہر چیز مغفرت کی دعا کرتی ہے، یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی ۔عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسے سارے ستاروں پر چاند کی۔ “(ابو داوٴد)
ایک اور روایت میں آتا ہے ، حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ رسول الله صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہے : ” علم سیکھو، کیوں کہ الله تعالیٰ کے لیے علم سیکھنا خشیت، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت ،اس کا پڑھنا پڑھانا تسبیح،اس کی جستجو جہاد، ناواقف کو سکھانا صدقہ اور اس کی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا ثواب کا ذریعہ ہے۔ نیز علم تنہائی کا ساتھی ، دین کا راہ نما ،خوش حالی وتنگ دستی میں مدد گار، دوستوں کے نزدیک وزیر ، قریبی لوگوں کے نزدیک قریب اورجنت کی راہ کا مینار ہدایت ہے ۔ اس کے ذریعے الله تعالیٰ کچھ لوگوں کو اوپر اٹھاتا ہے ۔ اور انہیں بھلائی میں راہ نمائی ، قیادت وسرداری عطا کرتا ہے ۔ جن کی پیروی کی جاتی ہے ، وہ بھلائی کے راہ نما ہوتے ہیں، جن کے نقش قدم پر چلا جاتا ہے اورجن کے افعال کو نمونہ بنایا جاتا ہے ۔ فرشتے ان کے دوستی کے خواہاں ہوتے ہیں اور اپنے پروں سے ان کو چھوتے ہیں ۔ ہر خشک اور تر ان کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے ، یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں ، جان دار ، خشکیوں کے درندے اور جانور ، آسمان اور اس کے ستارے تک ۔ علم ہی کے ذریعے الله کی اطاعت وعبادت کی جاتی ہے ، اس کی حمد وثنا ہوتی ہے ، اسی سے پرہیزگاری ہوتی ہے ، اسی سے صلہ رحمی کی جاتی ہے ، اسی سے حلال اور حرام جانا جاتا ہے۔ وہی راہ نما اور عمل اس کا پیروکار ہے ۔ بدبخت اس سے محروم رہتے ہیں۔“
(جامع بیان العلم وفضلہ از ابن عبدالبر رح)
ہمارے اسلاف حصول علم پر کس قدر زور دیتے تھے ملاحظہ ہو:
۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی کا قول ہے کہ “جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا گویا مجھے اپنا غلام بنا لیا۔
حضرت ابن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں : ” فقہ کی مجلس میں بیٹھنا ساٹھ سال عبادت سے زیادہ بہتر ہے ۔“
حسن بصری رح کا قول ہے کہ”علماء کی قلم کی روشنائی شہداء کے خون کے مقابلے میں تولی جائے ،تو علماء کے قلم کی روشنائی کا پلڑا بھاری نکلے گا“
حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں ”جو یہ سمجھے کہ علم کی جستجو میں آناجانا جہاد نہیں ہے،اس کی عقل اور رائے میں نقص ہے۔“
ایک صحابی کاقول ہے کہ ”اگر علم کے حصول کی کوشش کے دوران طالب علم کی موت آجائے ،تو وہ شہید ہے۔
امام احمد بن حنبل رح فرماتے ہیں:”کھانے پینے سے کہیں زیادہ انسان علم کا ضرورت مند ہے“۔
سفیان ثوری رح فرماتے ہیں: ” میری دانست میں اشاعتِ علم سے زیادہ افضل کوئی عبادت نہیں“
انہیں کا قول ہے ” اے قوم عرب! علم حاصل کرو، ورنہ مجھے ڈر ہے کہ علم تم سے نکل کر غیروں میں چلا جائے گا اور تم ذلیل ہو کر رہ جاؤگے علم حاصل کرو، کیوں کہ علم دنیا میں بھی عزت ہے اور آخرت میں بھی۔“
کسی دانا کا قول ہے کہ الله تعالیٰ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت عقل ہے اور کمالیت میں سب سے بڑا کمال ” علم کا کمال“ ہے ، یعنی علم سے بڑا کوئی کمال نہیں۔
حصول علم کے لئے جس قدر زور اسلام نے دیا کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا۔ مگر آج افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں نے قرآن و حدیث کی باتوں کو پس پشت ڈال دیا۔ اسلاف کی زندگیاں اسی جستجو میں خرچ ہو گئی، اقبال نے اسی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
خواندگی کے لحاظ سے مسلمان آج مغربی اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے۔ اج ضرورت اس امر کی ہے ہم مل کر عہد کریں کہ ہم خود کو اس علمی پسماندگی سے نکالیں گے۔ ہم جہاں جس حیثیت میں ہیں وہیں کام کا آغاز کریں۔ اپنے اردگرد دیکھیں سینکڑوں بچے ہیں جن کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات نہیں اٹھا سکتے۔ یہ علم اللہ کی عطا ہے ہمیں اس پر سانپ بن کر نہیں بیٹھنا بلکہ پھیلانا ہے۔ ہمارے اسلاف کا یہ حال تھا کہ
حضرت عطا فرماتے ہیں کہ ” میں حضرت سعید ابن مسیب کے پاس گیا ،وہ روتے تھے۔ میں نے رونے کی وجہ پوچھی، انہوں نے فرمایا:” مجھ سے کوئی پوچھتا نہیں، اس لیے رورہا ہوں۔“
پاکستان ایٹمی طاقت ہے مگر خواندگی کی شرح انتہائی کم ہم حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے گھر سے اپنی گلی محلے سے آغاز کریں۔
کچھ سال قبل آٹھویں کلاس میں ایک فارم پر کرایا جاتا تھا جس میں ایک حلف نامہ ہوتا تھا کہ میں اپنی زندگی میں کم ازکم ایک فرد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کروں گی/گا۔ آئیے اس یوم خواندگی پر ہم عہد کریں کہ ہم علم بانٹیں گے علم کا نور پھیلائیں گے۔
کل کرے سو آج ، آج کرے سو اب!!