سانحہ موٹر وے پر دل خون کے آنسو رو دیا ۔اور دل تو مغموم ہر اس وقت ہوجاتا ہے جب آۓ دن یہ بچوں سے زیادتی کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔کہ جہاں کوئ بچہ ،بچی تو عورت محفوظ نہیں اور ان واقعات کی تعداد میں نہایت ہی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے، کہ لگتا ہے کسی انسان کی عزت محفوظ نہیں ہے۔
ایک عورت ہونے کے ناطے اور زیادہ ڈپریشن محسوس ہوتا ہے کہ کیا اس معاشرہ میں صرف درندے رہتے ہیں؟؟؟؟ کیا یہاں ایک ماں ،بہن بیٹی کی کوئ عزت نہیں؟؟؟؟ کیا یہ معاشرہ صرف ہوس زدہ معاشرہ رہ گیا ہے؟؟؟؟کہ جسے کوئ عورت،لڑکی ،بچی نظر آۓ اور وہ اسے ہوس کا نشانہ بنا ڈالے؟؟؟
لیکن جب میں اسی معاشرے میں نظر دوڑارتی ہوں تو مجھے تو وہ مرد بھی نظر آتے ہیں جو ایک عورت کو بس میں پہلے چڑھنے کو کہتے ہیں۔اسی معاشرہ میں مجھے وہ جملے بھی سننے کو ملتے ہیں کہ جب کوئ عورت موٹر سائیکل پر جارہی ہوتی ہے تو کوئ کہتا ہے کہ باجی دوپٹہ اٹھا لو پہۓ میں نہ آجاۓ۔انھی مردوں میں وہ مرد بھی ہوتے ہیں جو ایک عورت کو گاڑی ٹھیک نہیں کرنے دیتے بلکہ خود بڑھ کر مدد کر دیتے ہیں۔کہ ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ ایک عورت ان کے ہوتے ہوۓ پنکچر لگاۓ یا گاڑی کو ٹھیک کرے۔انھی مردوں میں وہ مرد بھی ہوتے ہیں کہ جب کوئ کسی لڑکی کو چھیڑ رہا ہو تو اسے چڑھ کر مارنے کو دوڑتے ہیں۔
اور پھر اس وقت یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ پورا معاشرہ خراب نہیں۔ بس یہاں پر چلنے والے فحش اشتہارات تو موبائل کے ایک ٹچ پر آجانے والی گندگیاں و فحش ترین چیزیں ان مردوں کو ان نوجوانوں کو خراب کر رہی ہیں تو ساتھ ہی نکاح کو مشکل ترین بنا دینا بھی ایک بہت بڑا عنصر ہے۔ کہ تھیم کلچر تو ان گنت فنکشنز کہ جن میں شادی کرنا تو بہت مشکل ہوگیا ہے۔اور یہ زنا نہایت ہی آسان ترین بنا دیا گیا ہے۔اور ساتھ ہی اس گھناؤنے عمل کرنے پر سزاؤں کا نہ ہونا۔ کہ جس کی وجہ سے اس جیسے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
لہذا اگر صرف چند مندرجہ ذیل چیزیں کر دی جائیں تو کافی حد تک ان جرائم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
۱:ہر طرح کے فحش مواد پر پابندی لگائ جاۓ ۔چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا پر ہو یا پرنٹ میڈیا پر
۲:نکاح کو آسان بنایا جاۓ
۳:اس گھناؤنے عمل کرنے والے اصل مجرموں کو عوام کے سامنے سنگسار کرنے کی سزا دی جاۓ
تاکہ آئندہ کوئ دوسرا ایسا گناہ نہ کر سکے