ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شہر میں ایک نیک آدمی اسلام دین کئی بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔ شہر میں اس کی کافی زمین جائیداد تھی۔ اس لیے بیٹوں کو اس کی نگہبانی کرنے کے لیے مختلف جگہ آباد کیا ہوا تھا۔ مگر سب بیٹے مرکز سے یعنی والد سے جڑے ہوئے تھے۔ اگرچہ سب اپنے حصے پر خود مختار تھے، مگر باپ ان کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا تھا۔ چھوٹی موٹی رنجشیں کبھی ہو جاتیں مگر بظاہر وہ بہت امن اور اتفاق سے اپنے کام دھندوں میں مصروف رہتے تھے۔ ہر ایک کے بیوی بچے تھے، خاندان تھا۔ اسی شہر میں مختلف ذات برادری کے لوگ آباد تھے۔ جو ان باپ اور بھائیوں سے حسد کرتے تھے۔ مگر چونکہ وہ ایک جتھے کی مانند تھے تو کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکتا تھا۔
اس شہر میں یونین کا نظام رائج تھا۔ اس یونین کا قصہ یوں ہے کہ کچھ گروہوں میں شدید لڑائی کے بعد مشترکہ طور پر امن قائم رکھنے کے لیے یونین بنائی گئی تھی۔ اگرچہ آج تک اس نے کوئی درست فیصلہ وقت پر نہیں کیا تھا۔ اس بڑی لڑائی میں اسلام دین کے درمیانے بیٹے کا کچھ قصور نکل آیا تھا، (اگرچہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا چونکہ یہ بیٹا بہت اچھا ذہین تھا اور محنتی تھا تو سب اس سے حسد تھے)۔ پھر تو یونین نے سب بھائیوں کو خوب سنائیں۔ اور سزا کے طور پر ان کو الگ الگ کر دیا۔ اس شہر کے باہر کچھ خانہ بدوش رہتے تھے۔ صدیوں سے یہاں وہاں مارے مارے پھر رہے تھے۔ جہاں جا کر بسنا چاہتے ذلیل و رسوا کر کے نکال دیئے جاتے تھے۔ مشہور تھا کہ وہ کسی بد دعا کے زیر اثر ہیں۔ ان کو کبھی کسی زمین میں پناہ نہ مل سکے گی۔ انہوں نے یونین سے رو رو کر منتیں کیں کہ ہمیں بس ایک گھر بنانے کی اجازت دے دو۔ یونین کے لوگ ان کی بد فطرت سے واقف تھے، مگر ان کے دل میں اسلام دین کے لیے نفرت بھی تھی تو طے یہ ہوا کہ ان کو صرف ایک گھر بنانے کی اجازت دی جائے گی ۔ چونکہ درمیانے بیٹے کا لڑائی میں قصور نکالا گیا تھا تو اسی کی زمین سے تھوڑا سا حصہ ان خانہ بدوشوں کو دے دیا گیا۔ باقی بھائیوں نے تھوڑا بہت شور مچایا مگر پھر خاموش ہو گئے۔
خانہ بدوش بہت چالاک اور مکار تھے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ یونین کو اپنے ہاتھ میں کرلیا۔ اور درمیانے بیٹے کی زمین پر قبضہ جمانے کا پلان بنایا۔ ایک کے بعد دوسرا گھر بنایا۔ جب درمیانہ بیٹا یونین کے پاس شکایت لے گیا تو وہ ستو پی کر سو رہی تھی۔ خانہ بدوش ایک کے بعد ایک گھر بناتے گئے اور بستی سے باہر اپنی لوگوں کو لا لا کر بساتے گئے۔ ہر بار اسلام دین کے بیٹے یونین کو شکایت لگاتے مگر کوئی جواب نا آتا۔ درمیانے بیٹے کی زمین اسی پر تنگ کی جانے لگی۔ بھائیوں نے اپنی ایک الگ یونین بنا لی اور اس زبردستی قبضے کے خلاف مل کر طے کیا کہ ہم ان غاصبوں کو کبھی نہیں تسلیم کریں گے۔ نہ ان کے ساتھ راہ و رسم رکھیں گے۔ نہ اپنی زمین سے راستہ دیں گے۔ نہ ان سے بات ہی کریں گے۔ درمیانے بھائی کی اشک شوئی کی گئی۔ دلاسے اور وعدے ہوئے۔ مگر اس سب سے کیا ہوتا تھا۔ نئی یونین کے بجائے ان کو اسی وقت دو دو ہاتھ کرنے تھے مگر ۔۔۔۔ یہ یونین بھی مرکزی یونین جیسی ہی ثابت ہوئی۔
خیر کچھ سال اور گزر گئے، مزید زمین خانہ بدوش ہڑپ کرگئے۔ اب درمیانے بھائی کے پاس صرف ایک دو مکان کی زمین رہ گئی تھی۔ مرکزی یونین کی خاموشی نے خانہ بدوشوں کو شہہ دے رکھی تھی۔ وہ یونین کو کافی پیسہ بھی کھلا چکے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ بھائیوں نے آہستہ آہستہ خانہ بدوشوں سے بات چیت شروع کردی۔ کچھ اندرون خانہ کھانے وغیرہ کا تبادلہ بھی ہونے لگا۔ وہ سب خانہ بدوشوں کی بڑھتی طاقت اور اثر کو دل ہی دل میں تسلیم کرنے لگے۔ درمیانے بیٹے کے حالات دن بدن مخدوش ہوتے جارہے تھے۔ مگر ایسا لگتا تھا دوسرے بھائیوں کو پرواہ ہی نہیں حتی کہ والد کی طرف سے بھی کوئی خاص ردعمل نہیں آتا تھا۔
پھر ایک صبح گویا قیامت ہی آگئی۔ ایک کنارے والے بھائی نے خانہ بدوش قبیلے کو تسلیم کرلیا۔ اس سے تعلقات بحال ہونے کا اعلان کردیا۔ گو کہ کافی عرصے سے اس کے تعلقات کی خبر سب کو تھی مگر یوں علی الاعلان تعلقات کی استواری۔۔۔۔ خانہ بدوش اس دن اپنی فتح پر بہت خوش تھے۔ اپنے گھروں پر کنارے والے بھائی کے جھنڈے لگائے گیت گائے گئے، خوب جشن ہوا۔ یہ سب آوازیں درمیانے بھائی کو بھی سنائی دیں وہ دکھ اور تکلیف سے بول ہی نہ سکا۔ اب خانہ بدوش یہ کہنے لگے کہ عنقریب باپ اور دوسرے بھائی بھی ان کو مان لیں گے۔ چونکہ خانہ بدوش درمیان میں آباد تھے اور ان کو لمبا راستہ طے کرکےشہر سے باہر ادھر ادھر جانا ہوتا تھا۔ جس بھائی نے اسے تسلیم کیا تھا اس کی زمین کے درمیان میں چھوٹے بھائی کی زمین تھی۔ ان دونوں بھائیوں کی ایک صلاح ہوا کرتی تھی۔ مگر ابھی چھوٹے نے خانہ بدوش سے ظاہری دشمنی جاری رکھی۔ خانہ بدوشوں کے چونکہ کنارے والے بھائی سے روابط بڑھ رہے تھے تو اس نے چھوٹے بھائی کو کہا کہ وہ اپنی زمین سے اس یارانے کو پنپنے کے لیے راستہ دے دے۔ اب چھوٹے بھائی نے کہا کہ اگر میں تمہاری طرح کھل کر دوں گا تو سب برا کہیں گے درمیانے بھائی کو بھی دکھ ہوگا تو میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ کہوں کہ تمہارے لیے راستہ کھلا ہے، آنے جانے گا اور تم سے متعلق لوگ اس راستے آ جاسکتے ہیں۔ البتہ خانہ بدوشوں کو ہم غاصب ہی سمجھتے ہیں اور ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یوں اس حیلے سے راستہ کھول دیا گیا۔۔ کیا خیال ہے مسافر اگر دم لینے کو رکنا چاہیے سر راہ تو کوئی روک سکتا ہے ؟؟ خواہ وہ خانہ بدوش ہی ہو۔۔۔۔۔
ادھر اسلام دین کے گھر میں بھی کچھ چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ گھر کے معزز فرد نے کچھ ڈھکے چھپے الفاظ میں گھر والوں کا ذہن بنانا شروع کر دیا۔ انہوں نے گھر والوں کو یاد کرایا کہ ان کے اجداد کے ساتھ کئی مواقع پر خانہ بدوشوں کے ساتھ رہنے بسنے کے روایات موجود ہیں ۔ یہ کوئی ایسی انہونی نہیں ہے کہ ہو ہی نا سکے۔۔۔۔
خبر ہے کہ عرب امارات کی درخواست پر بحرین نے امارات سے آنے جانے والی ہر قسم کی پروازوں کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے!!!
دوسری خبر ہے کہ جمعہ کے خطبہ میں امام کعبہ نے “غیر مسلموں” سے اسلامی روا داری اور تالیف قلب کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا!!!