عموماً جب بھی پردے کا ذکر آتا ہے تو اس کا موضوع عورت کو ہی سمجھا جاتا ہے اور یہ صحیح بھی ہے عورت کا مطلب ہی چھپی ہوئی ہے۔ عورت اور حجاب لازم و ملزوم ہیں لیکن اس کی ساری زمہ داری عورت پر نہیں ہے اس کی زمہ داری مرد پر بھی ہے۔ گھر کے اندر بھی مرد نگران ہے اور باہر بھی مرد نگران ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تقدیسِ نسواں کا محافظ مرد ہی ہے۔ قرآن پاک میں جب اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم دیا تو پہلے مرد کو ہی مخاطب کیا:
“اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ طریقہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بےشک اللہ جانتا ہے جو وہ کر رہے ہیں(سورة النور٣٠)
یہاں مسلمان مرد کو اپنی زمہ داری پوری کرنے کی ضرورت ہے نا کہ پردہ عورت کی زمہ داری سمجھ کر خود ہر فرض سے بری الذمہ ہو جائیں۔ مرد کو اللہ نے قوام بنایا ہے اور اس پر قوامیت کی بہت سی زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
مرد گھر کا سربراہ ہے اگر مرد اپنی نگاہ کی حفاظت کرنے والا ہو گا تو اس کے گھر کی بہو بیٹیاں، اور بیٹے بھی پاکیزہ اور مکمل لباس میں ہوں گے۔ گھر کا ماحول بھی وہی ہو گا جو اسلامی ماحول کی مکمل عکاسی کرتا ہو گا۔
گھر سے باہر دفتر چلانے والا ہو گا یا کہیں بھی کام کرتا ہو گا تو اس کے ماتحت کام کرنے والے لوگ بھی اس کے کردار کی وجہ سے تمام اخلاقی قدروں کا خیال کریں گے، اور عورتوں کو بھی باحجاب لباس پہننے کی پابندی ہو گی اس کے برعکس دیکھا گیا ہے کہ دفاتر میں اچھی پوسٹ پر بیٹھے ہوئے مرد خاتون سیکرٹری، خاتون اسسٹنٹ کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور ان کے لیے لباس کی بھی پابندی ہوتی ہے کہ مغربی لباس ہی پہنا جائے تو مجبوراً معاش کی وجہ سے پریشان بچیوں کو بھی اپنی اخلاقی قدروں سے ہٹ کر لباس پہننا پڑتا ہے۔
اگر عمومی مسلمان مرد “نگاہوں کی خفاظت” کرنے والا ہو گا تو دفاتر کا ماحول بھی بدل جائے گا۔ اول تو خاتون سیکرٹری یا خاتون اسسٹنٹ کی گنجائش ہی نہیں رہے گی اور اگر ضروری بھی ہوا تو ماحول اس کے بلکل برعکس ہو گا، خاتون کے پردے کا پورا انتظام ہو گا اور اس وجہ سی جو عورتیں مجبوری حالات کی وجہ سے گھروں سے نکلتی ہیں ان کے لیے بھی آسانی ہو گی۔ مرد نگاہوں کی حفاظت کرنے والا ہو گا تو اس کے دل میں بھی تقوی اور حیا ہو گی تو آجکل کے جو مسائل ہیں ( جنسی بے راہ روی، جنسی تشدد، عورتوں کو ہراساں کرنے کے مسائل،غیرت کے نام پر قتل) سب ختم ہو جائیں گے۔ اس کے لیے پھرکوئی بل یا قانون کی بھی ضرورت نہیں رہے گی بس ایک قانون لاگو ہو گا ” نگاہوں کی خفاظت” اس سے دلوں کی پاکیزگی خودبخود پیدا ہو جائے گی۔
یہ تو بات گھر اور گھر سے باہر کی ہے تو معاشرہ کتنا بہتر ہو سکتا ہے اور اگر ایسا مرد حکمران ہو گا تو پورے ملک کے حالات بدلیں گے۔ حکمران نگاہوں کی حفاظت کرنے والا ہو گا تو وہ اپنے ملک کی شاہراہوں کو ، پبلک ایریاز کو، ٹیلی ویژن کو ، اخبارات کو تمام فحشاء سے پاک کرے گا۔ اسلام کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہر وہ بات جس سے ایمان کو خطرہ ہو سکتا ہے وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔
بے حیائ کے تمام اشتہارات، سائن بورڈز، بے حیائی کے تمام مناظر تبدیل ہو جائیں گے پھر نا آنکھوں کو ایسی چیزیں دیکھنے کو ملیں گی نا دل کا چور جاگے گا۔ معاشرہ پاک و صاف ہو جائے گا۔ ہر مرد غیرت مند، حیا کرنے والا اور نگاہوں کی خفاظت کرنے والا ہو جائے تو بے حیائی کے تمام اڈے بند ہو جائیں، بے حجاب عورت کا ساتھ دینے والا بھی ہمیشہ ایک مرد ہی ہوتا ہے۔ عورت کے اندر فطری طور پر حیاہ ہے اسے حالات بدلتے ہیں یا تو مجبوراً یا پھر شوق سے جب کبھی کوئی ٹوکنے والا نا ہو تو وہ بہاؤ کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہے۔ جب تک ایک باحیا مرد ہر عورت کے ساتھ ہے تب تک کوئی عورت سیدھی راہ سے نہیں بھٹک سکتی۔ عورت اس دنیا کی خوبصورتی ہے اور اس خوبصورتی کا محافظ مرد ہے۔
عورت ناز سے گوندھی گئی ہے اسے ہمارے پیارے نبی نے نازک آبگینے کہا ہے۔ یہ اسلیے ہے کہ اس کے ناز اٹھائیں جائیں اگر مرد شوہر ہے تو اس پر لازم ہے وہ اس نازک آبگینے کو ہر نامحرم کی نظر سے بچا کر رکھے اور اس کی خوبصورتی کو کبھی مانند نا پڑنے دے، یہ آبگینہ ہمیشہ اسی کے لیے نازک اور خوبصورت رہے۔ جس گھر میں ایسے مرد اور عورت ہوں گے اس گھر میں پرورش پانے والے بچے بھی عورت کی تقدیس کی خفاظت کرنا جانتے ہوں گے وہ پھر ان کی ماں ہو، بہن ہو یا باہر کام کرنے والی کوئی عورت۔ اس مضبوط چار دیواری سے نکلنے والا مرد دنیا کے ہر میدان میں اپنی نظروں کی خفاظت کرنا جانتا ہو گا۔
اے تقدیسِ نسواں کے محافظو!! اپنی قوامیت کو پہچانو..
ہمارے معاشرے میں بنت حوا لٹ رہی ہے اسے اپنے محافظ کا انتظار ہے۔ عورت کے لیے غیرت اس سے رشتہ دیکھ کر نا دیکھاؤ بلکہ اس لیے دیکھاؤ کہ تم ایک مرد ہو اور تم پر لازم ہے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو۔ خود کو محفوظ رکھو گے تو تمھاری بیوی، بہن اور بیٹی بھی محفوظ رہے گے۔