آج ویک اینڈ تھا اور لازمی تھا کہ بچوں کو لے کر پارک کا رخ کیا جائے ۔۔یہاں سعودی عرب کے صحراوں میں آباد شہروں میں رہنے والے لوگوں کی چاہے امیر ہو یا غریب واحد صحت افزاء سر گرمی پار کوں میں جاکر تازہ آب و ہوا میں وقت گزارنا ہے ۔۔۔
سورج ڈھلتے ہی فیملیز سازوسامان کے ساتھ یہاں کا رخ کرتی ہیں اور رات گئے تک بیٹھتی ہیں۔۔۔ریتیلے نظاروں کا سفر کرتے کرتے نخلستان نما پارک میں آکر بیٹھو تو ہریالی کی دید دل و دماغ کو تروتازگی دیتا ہےتو تصور میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ باغ یاد آجاتا ہے جس میں نبی محترم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تازہ کجھوریں اور تازہ پانی نوش فرماتے ہیں تو بیان فرماتے ہیں کہ ان نعمتوں کا بھی حساب ہے۔۔۔اللہ اکبر۔۔
بچے جھولوں میں مگن ہوئے تو میاں کے ساتھ واکنگ ٹریک پہ آگئے
چلتے چلتے یک دم سدا بہار پہ نظر پڑی تو ادھر ادھر دیکھا کہ موسم اور بے موسم کا کوئی پھول نہیں لیکن سفید اور جامنی سدا بہار دونوں طرف قدموں کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔۔کیونکہ سدا بہار تو اپنے نام کی طرح سدا بہار ہے ۔۔۔صحرا میں بھی اللہ نے اس کے نام کی طرح اسے سدا بہار رکھا۔۔۔پھر خیال آیاکہ اللہ تعالی ایسا ہی ایمان ۔۔رب العزت۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن سے ایسا ہی تعلق عطا فرمادے جو سدا بہار کی مانند ہو ۔۔ہر گرم وسرد۔۔ہر تنگی و خوشحالی ۔۔ہر مشکل اور آسانی میں سدا بہار رہے۔۔
آمین۔
۔سلسلہ گفتگو چلتا رہا یک دم میاں جی سے پوچھا سدابہار کو دیکھ کر کیا خیال آیا تو کہتے ہیں۔۔اپنا شہر اپنے لوگ اپنا گھر اپنا وطن۔۔میں نے کہا مجھے اپنا بچپن یاد آیا۔۔پہلا پھول جس کی پہچان ہوئی وہ سدا بہار تھا اور ہم اپنی اپنی سوچوں میں گم ہو گئے۔۔۔ایسے کتنی ہی یادیں ہماری ذندگیوں میں سدا بہار کی مانند ہیں۔۔اللہ تعالی انہیں سدا بہار کی طرح رکھے ۔۔کیونکہ سدا بہار تو سدا بہار ہے پھر۔۔۔۔
ڈاکٹر سارہ شاہ