واپڈا نے بیان دیا ہے کہ حب ڈیم کی دیوار یں کمزور ہوگئی ہیں ان کی مرمت کروائی جائے۔حالیہ بارش میں یہ خبریں بھی آئی کہ حب ڈیم میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور یہی صورتحال رہی تو اس کے اسپل ویز کھول دیئے جائینگے تاکہ ڈیم کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکے ۔ اور پھر یہ خبر بھی دیکھنے کو ملی کہ اسپل ویز کھول دئیے گئے اور یہ اضافی پانی حب ندی کے زریعے مبارک ویلج کے مقام پر سمندر میں بہا یا جارہاہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ ڈیم ایک بار بھر جائے تو کراچی کے لیے کئی سالوں تک پانی کی ضروریات کے لیے کافی ہوتاہے ۔لیکن کیا کراچی سے پانی کی قلت دور ہوگئی ؟ حالا نکہ حب ڈیم اور کرلی جھیل کئی بار بھر چکے ہیں ۔ لیکن پانی کی قلت تا حال برقرار ہے اور مزید بڑھتی جارہی ہے ۔مئیر عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان صاحب کے زمانے میں جب وہ کراچی کے ناظم کراچی تھے اس مسئلے پر انہوں نے خاص توجہ دی ۔ ان حضرات نے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس کو پانی کی قلت سے بچانے کے لیے حب ڈیم اور کرلی جھیل سے پانی کی فراہمی کے بڑے بڑے منصوبے تیار کئے تھے ۔کے تھری کا منصوبہ اور کے فور کا منصوبہ ان کے اہم ترین منصوبے تھے ۔کے تھری کا منصوبہ مکمل ہوا تو کراچی کو بڑی مقدار میں پانی میسر آیا مگر کے فور کا منصوبہ نہایت ضروری تھا کیونکہ کراچی کی پانی کی ضرورت بڑھتی جارہی تھی ۔ مگر جس طرح اور دیگر منصوبوں کی تکمیل میں صوبائی اور شہری حکومت جوکہ ایم کیوایم اور پیپلز نے روڑے اٹکائے ان منصوبوں کو بھی روکا، ان منصوبوں میں کے تھری مکمل ہوا اور کے فور کا منصوبہ ناظم اعلی نعمت اللہ خان کے جاتے ہی روک دیا گیا اور کراچی کو دیگر بحرانوں کے ساتھ پانی کے بحران میں بھی مبتلا کردیا گیا ۔
کراچی منی پاکستان اور ملک کا سب سے بڑا معاشی حب ہے اس کو جان بوجھ بجلی اور گیس کے بحرانوں کی طرح پانی کے شدید بحران میں مبتلا کر دیا گیا ہے ۔پانی کے ذخائر کی کوئی کمی نہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ حب ڈیم میں پانی کا ذخیرہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور اس کے اسپل ویز کو کھول کر پانی کو سمندر میں بہایا جارہا ہے ۔کراچی کے چند ہی علاقوں میں پانی روز کی بنیاد پر گھروں میں آتاہے ورنہ غریب آبادیاں کیا شہر کے پوش علاقے بھی پانی کی قلت سے دوچار ہیں اور پانی خرید کرٹینکروں کے زریعے استعمال کررہے ہیں ۔کراچی میں ٹینکر کےزریعے پانی بیچنے والے افراد نے ایک مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے یہ لوگ پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اور پانی کو بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں ۔پانی ہر جاندار کی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے یہ بے ضمیر افراد اس کی بھی مصنوعی قلت پیدا کرنے سے باز نہیں آتے ۔ پانی کی قلت اور ٹینکر مافیا کے خلاف بڑےبڑے مظاہرے بھی کئے گئے لیکن اس کا کوئی حل اب تک نہیں نکل سکا اور آج بھی ٹینکر کراچی کی سڑکوں پر دن رات دندناتے پھرتے ہیں ان سے حادثات بھی آئے روز ہوتے رہتے ہیں ۔ اور قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں ۔ مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے چپ تماشائی بنے سب کچھ دیکھتے ہیں پانی کی قلت پیدا کرنے والے ان لوگوں نے سیاسی قوت بھی حاصل کرلی ہے کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم اور پولیس مل کر یہ کاروبار کررہی ہےاور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنا اپنا حصہ وصول کررہی ہیں۔ظاہر ہے جب ملک کا عدالتی نظام مجرموں کے جرائم پر بجائے یہ کہ سزادے ان کے جرائم پر صرف تبصرہ کرے تو ایسے میں ناگزیر ہے کہ اس طرح کے افراد پیدا ہوتے ہیں ۔کراچی واٹر اینڈ سوریج بورڈ میں ہزاروں کی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر ملازمین بھرتی کیئے گئے یہ افراد پہلے گلی محلوں میں بھتے کی پرچیا ں بانٹنے کا کام کرتے تھے اب بھی وہی کام کرتے ہیں ۔ ایک ایک پمپنگ اسٹیشن پر بیس بیس افراد تعینات ہیں اور حکومت سے تنخواہیں پاتے ہیں جن علاقوں میں پانی پندرہ دنوں اور مہینہ بھر کے بعد آتاہے وہاں ان بھتہ خوروں نے اپنے لوگ رکھے ہوئے ہیں جو علاقہ مکینوں سے رقم بٹورتے ہیں اور اس کے عیوض پانی دیتے ہیں جولوگ پیسے دینے سے انکار کرتے ہیں ان علاقوں میں پانی کم فراہم کرتے ہیں یا دیتے ہی نہیں ۔یہ بے ضمیر اور ظالم افراد کا ٹولہ اداروں کے اندر بیٹھ کر لاکھوں کی رشوت اکھٹا کررہاہے ۔ پانی پہلے ٹینکر مافیا کو دیا جاتا ہے پھر اس کے بعد علاقوں کو نلوں کے زریعے فراہم کیا جاتاہے ۔گذشتہ دنوں آن لائن پانی کا نظام متعارف کرایا گیا جس کے زریعے لوگ پانی ٹینکروں سے خرید رہے تھے۔ یہ نظام بھی اپنی موجودگی غیر شفاف نظام بن کر رہ گیاہے ۔کیا حکومت اتنی مجبور ہوگئی ہے کہ ماضی کی طرح شہریوں کو نلوں کے زریعے پانی مہیا کرتی ؟ حالانکہ پانی کا بل گھروں میں کیا ان دوکانوں میں بھی آتاہے جہا ں لوگ چھ آٹھ گھنٹوں کے لیے کاروبار کے لیے آتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ تو نظر آجاتا ہے کہ کس موٹر سائیکل والےکے پاس کاغذات نہیں ہیں اور وہ بڑے بڑے تالاب نہیں نظر آتے جو کہ پانی کی لائینوں کو توڑ کر ٹینکر کے زریعے پانی بیچنے والوں نے بنائے ہیں ۔
واٹر اینڈ سوریج بورڈ کے مظالم اور جرائم کی داستان بڑی طویل ہے یہ ادارہ لوگوں سے بل تو وصول کررہا ہے مگر پورے شہر میں جگہ جگہ پائپ لائن ٹوٹی ہوئی ہیں یہ لائنیں نصف صدی پرانی ہیں اور اب تک ان کو تبدیل تو کیا مرمت بھی ان کی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے ان ٹوٹی ہوئی لائینوں سے نالوں اور گڑ کا گندا پانی ان لائینوں میں جاتا ہے اور پھر یہی پانی لوگوں کے گھروں میں جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔ لوگ گردوں کے امراض اور دوسری مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں ۔اس کے علاوہ سڑکوں اور راستوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔