یک بڑی جنگ اور بہت سی قربانیوں کے بعد اب جب بھی یہ دن آتا ہے شہیدوں کے خون سے لہلہاتا ہے۔فتح کی حسین یاد سے مسکراتا ہے اور اس دن ہر سال سورج کی رو پہلی کرنوں سے عزم جواں کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں۔اس دن ایک فرد نہیں پورا ملک مسکراتا ہے اور گاتا ہے اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا!
اللہ اکبر،اللہ اکبر
مگر آج ہی کے دن ایک ملک بکری کی طرح منمناتا ہے اور اپنے زخموں کی یاد سے تڑپ اٹھتا ہے۔وہ ملک جس نے مسلمانوں کی آزاد مملکت کو کبھی دِل سے تسلیم نہیں کیا ، گذشتہ 18سال سے جنگی تیاریاں کرتا رہا۔
مگر 18 سال کی تیاری کے بعد اچانک شب خون مارنے والے دشمن نے سترہ دن کی جنگ اس نوزائیدہ ریاست پر مسلط کی تو دشمن نے دیکھا کہ اس نو عمر نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دُشمن کو ناکوں چنے چبوائے اور عظیم شکست سے دوچار کیا۔
ایک طرف خوش فہم ہندوستانی فوج کا کمانڈر انچیف اپنے ساتھیوں سے کہ رہا تھا کہ وہ مل کر فتح کے بعد لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے۔
دوسری طرف ہماری مسلح افواج نے جواب میں کمانڈر انچیف کے منہ پر ایسا تھوکا کہ وہ اس میں بہہ کر رہ گیا۔
وہ انوکھے دن تھے،صبح و شام ہتھیلیوں پر جان لیے ہوتے تھے،جذبہ جہاد سرشار،ایمانی قوت سے لبریز۔
یہاں تک کہ لاہور سیکٹر میں میجر عزیز بھٹی اور ان جیسے بہادر جوانوں نے جان دے کر گر دشمن کے ناپاک قدم روک دیے۔
صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے’’پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو نے قوم میں ایسی روح پھونک دی کہ عوام ریاست اور فوج کا دست بازو بن گئے۔
پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر غالب تھا،جب ہندوستانی جہاز’’تلوار‘‘کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا تو وہ خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔
چونڈہ سیکٹر کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں کا سودا جنت کے عوض کر کے ہندوستانی فوج اور ٹینکوں کا شمشان گھاٹ بنا دیا۔
سکواڈرن لیڈر ،محمد محمود عالم یعنی ایم۔ایم۔عالم نے سرگودھا کے محاذ پر پانچ انڈین ہنٹر جنگی طیاروں کو ایک منٹ کے اندر اندر مار گرایا۔ جن میں سے چار 30 سیکنڈ کے اندر مار گرائے تھے۔ یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا
بیرون ممالک سے آئے ہوئے صحافی حیران بھی تھے اور پریشان بھی کہ آخر پاکستان کے پاس ایسا کیا پے جو ہندوستان اتنی بڑی تباہی کا شکار ہوگیا ہے۔
اس جنگ میں پاکستان کا سامان تجارت لانے لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔ مگر ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔
اس جنگ میں اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار ، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار ،مزدور،کسان غرض کہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
یقینا پڑھنے والے جان گئے ہوں گے کہ یہ 6 ستمبر 1965 کی اس جنگ کی داستان ہے جس میں بغیر اعلان جنگ کیے ناپاک بھارت نے اپنے ناپاک عزائم سمیت پاکستان پر جنگ مسلط کی اور منہ کی کھائ۔
اس دن ہر پاکستانی سپاہی کی زبان پر بس ایک ہی ترانہ تھاکہ
ہمیں تھے رات کے پہلو میں جاگے
سحر ہم سے بغاوت کر کے دیکھے
اس وقت عوام نیند سے جاگے اور بھارتی ریشہ دوانیوں کی مدت سے جاگنے والی فوج نے بھارتی فوج کو شراب پینا تو دور کی بات لاہور کے جم خانہ کی طرف دیکھنے کی بھی مہلت نہ دی۔اور کافروں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیا۔
در حقیقت 1965ء کی ہندوستان اور پاکستان جنگ سے ثابت ہوا کہ جنگ ریاست، عوام اور فوج کے اتحاد سے جیتی جاتی ہے۔ یہی وہ اتحاد تھا جو چھ ستمبر کی جنگ کا اصل فاتح بنا،جس نے آزادی پاکستان کو بقا اور نظریہ پاکستان کو سونے کے پانی کی دھار سے جلا بخشی۔