شاید ہی کوئی ہو جس نے اونٹ اور خیمے والی عربی حکایت نہ سنی ہو ۔ جس میں اونٹ آہستہ آہستہ خیمے کے اندر قبضہ کر لیتا ہے اور بدو کو خیمے سے باہر کر دیتا ہے ۔ کیا دیگر اقوام کی تہذیب و معاشرت سے متاثر ہو کر اپنی ہیروں جواہرات جیسی تہذیب کو دیس نکالا دینے کا مطلب اونٹ کو خیمے میں لا بٹھانے کے مترادف نہیں؟؟
چند عشروں پہلے تک ہمارے گھروں کی دہلیز پر ایک نادیدہ رکاوٹ ہماری گھریلو معاشرت کی محافظ تھی ۔ ایک ان دیکھا حجاب تھا جسکے تحت بھائی اپنے دوستوں کو گھر کے باہر بنے چبوترے پر یا کسی درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس لئے گھنٹہ بھر باتیں کرلیتا تھا کہ گھر کے اندر اس کی بہنیں ہیں ۔ جب اس رکاوٹ کو ہٹا کر گھر کو گزرگاہ بنا دیا گیا ۔ تو شیطانی تہذیب اپنے پورے لاءو لشکر سمیت اس میں داخل ہو گئی ۔ اب حال یہ ہے کہ اونٹ تو خیمے کے اندر ہے اور بدو صحرا کی یخ بستہ رات اور جھلسا دینے والے دن کا سامنا کرتا خیمے کے آرام کو ترس رہا ہے ۔
آج ہماری معاشرتی قدریں بھیانک طوفان کی زد میں ہیں ۔ ایسے سانحات جنم لے رہے ہیں کہ قلم تحریر کرنے سے قاصر ہے ۔ ہمارے گھر ایک قلعہ کی مانند تھے جہاں امن ،سکون ،حیاداری، رواداری، ادب و احترام پر مبنی تمدن پروان چڑھتا تھا، آج دجالی فتنوں کی گولہ باری کی زد میں ہے ۔
خالقِ کائنات کی ایک عظیم نشانی کھارے پانی کے بیچوں بیچ میٹھے پانی کے ذخائر کا موجود ہونا ہے ۔ انکے درمیان ایک پردہ حائل ہے جو انکو گڈ مڈ نہیں ہونے دیتا ۔
’’اور وہی ہے جس نے دو دریاءوں کو ملا دیا ۔ ایک میٹھا نہایت شیریں ، دوسرا کھاری نہایت تلخ ۔ اور اس نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور ایک مضبوط رکاوٹ بنا دی ۔ ‘‘ (الفرقان، آیت 53)
مرد و زن معاشرے کی اکائی ہیں ۔ لیکن ربِ کریم نے انکے لئے معاشرتی حدود کچھ ایسی نزاکت اور باریک بینی سے متعین کر دیں تاکہ انکو مخلوط ہونے اور گڈ مڈ ہونے سے روکا جا سکے ۔ پردہ اور حجاب کی صورت عصمت و عفت کا نفیس اور انوکھا نظام دیا جو مرد وزن کی فطرت کے عین مطابق ہے جوکھارے اور میٹھے پانی کو گڈ مڈ نہیں ہونے دیتا ۔ بلکہ ایک دوسرے کے لئے مفید اور کار آمد بناتا ہے ۔
جب ایک مسلم خاتون گھر سے باہر کے امور کی انجام دہی کے لئے عبایا ، چادر، اسکارف یا کسی بھی انداز سے اپنے آپ کو ڈھانپ کر نکلتی ہے تو یہ در اصل اسی نظامِ عصمت کی ایک شق پر عمل پیرا ہوتی ہے ۔ یعنی اپنے آپ کو پابندِ حجاب کر لینا اسلام کے مکمل نظامِ عصمت کا ایک جُز ہے ۔ اس نظام کے بڑے اجزاء یہ ہیں کہ گھر وں میں غیر ضروری افراد کی آمد و رفت روکی جائے ۔ ضروری اور غیر ضروری افراد کو قرآن محرم اور نامحرم کی اصطلاح دے کر پوری طرح واضح کر دیتا ہے ۔ کمروں میں اجازت لے کر داخل ہونے کے آداب سے روشناس کراتا ہے ۔ گھروں میں بھی باپ، بھائی، بھتیجوں ، کے سامنے لباس کی حدود متعین کرتا ہے ۔ مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔ ایک بچہ جب آنکھ کھولتے ہی چہار دیواری میں ان حدود کی پابندی دیکھتا ہے اور اس ماحول میں پل کر بالغ ہوتا ہے تو وہ گھر سے باہر پرائی گاڑنے میں حیا محسوس کرتا ہے ۔ گھر کی تربیت نے اسے باہر نظریں نیچی رکھنا سکھا دیا ہے ۔ ایسے ہی گھروں سے وہ نسل تیار ہوتی ہے جو معاشرے کے لئے مفید ہوتی ہے ۔ اور ان سے معاشرے کو ہراسگی کا خطرہ نہیں ہوتا ۔
جب دہلیز کا پردہ چاک ہو جائے ۔ یعنی گھر کا محاذ کمزور پڑ جائے تو پھر کسی کو بھی گھر کی بہو بیٹیوں سے دوستی کا حق حاصل ہو جاتا ہے ۔ ایک ہی چھت تلے دور پار کے رشتہ دار محرم نامحرم کی تمیز کئے بنا گھلے ملے بیٹھے رہتے ہیں ۔ پھر باپ بھائی کے سامنے جس لباس میں آنے کی ممانعت کی گئی تھی اس سے کئی گنا بڑھ کر حدود شکنی کرتا لباس سرِ عام پہنا جانے لگتا ہے ۔ ایسے میں وہ خاتون اور وہ لڑکی جس نے اللہ کے حکم پر اپنے آپ کو پابندِ حجاب کیا اور وہ مرد اور وہ لڑکا جس کی تربیت د میں نگاہیں نیچی رکھنے کا سبق موجود ہے،بہت بڑے اعزازکے مستحق ہیں کیونکہ انہیں اپنے حجاب کو برقرار رکھنے کے لئے بے تحاشہ محنت کرنی پڑ رہی ہے ۔ یہ سارے رب کی نظر میں ہیں ۔ خاص فرشتے انکی حفاظت کر رہے ہیں ۔ وہ معاشرے میں الگ سے پہچانے جا رہے ہیں ۔ انکی نشست و برخاست انہیں باوقار بنا رہی ہے ۔
اور دوسری طرف گھر سے حیا کا نظام رخصت کرنے کے لئے سو ہتھیار لئے بے لگام میڈیا دندناتا ہواگھس آیا ہے ۔ عوام منافقت کے ساتھ اسکی پیش کردہ ہر چیز پر امنا و صدقنا کہہ کر عمل پیرا ہیں ۔ اور کڑوے پھلوں سے اپنی جھولیاں بھرتے چلے جا رہے ہیں ۔
سلام ہے ان خواتین اور بیٹیوں کو جو اپنے حجاب کی حفاظت کر رہی ہیں اور تہذیبی جہاد میں مشغول ہیں ۔ ۔ ۔
سلام ہے ان نوجوانوں اور مردوں کو جو بے حجابی کے اس ماحول میں بھی اپنی حیا کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
سلام ہے ان والدین اور بزرگوں کو جو گھر کو تہذیبِ اسلامی کا قلعہ بنانےکی جدو جہد میں مصروف ہیں ۔ ۔ ۔
ہاں !! بس ۔ ۔ ذرا تعداد میں کم ہیں ۔ تو یہ عظیم خوشخبری بھی تو انہی کے لئے ہے ۔ روزِ آخرت وہ اللہ کے مقرب بندے ہوں گے ۔ ۔
ثلۃ من الاولین ۔ ۔ و قلیل من الآخرین “وہ اگلوں میں سے بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے کم ۔ (الواقعہ)