اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق سے پہلے بے شمار مخلوقات پیدا کی تھیں۔۔لیکن حضرت انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اشرف المخلوقات کا تاج اس کے سر پر رکھنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔۔یہ تاج اس کے علم اور عقل کے علاوہ اطاعت رب کی وجہ سے اسے نصیب ہوا۔۔انسا ن کو جسم اور روح کا مرکب بنایا گیا ۔۔جسم کی بہتری کے لیے بھی ہدایات و تعلیمات سے مالا مال کیا گیا کائنات کی ساری مشینری ہی اس کی روزی روٹی کے لیے مسلم کردی گئ۔ زمین وآسمان،درخت، پہاڑ،سمندروبیابان سب اس کے جسمانی سکھ اور آرام کے لئے مصروف عمل کردیے گیے تو روحانی پہلو کو اس سے بھی بڑھ کر فضیلت دی گئ ۔۔۔الہامی کتب،اور پیغمبروں کی آمد کا پہلے انسان کے ساتھ ہی سلسلہ شروع ہوگیاانسان کےخِلق اس کے خلق کی درستگی کا تا قیامت بندوبستی کردیا گیاخَلق سے مراد انسان کی ظاہری شکل و صورت اور خلق( پیش کے ساتھ) سے مراد اس کی باطنی خوبصورتی یا عادات ہیں اللّٰہ نے انسان میں اپنی کچھ صفات کی جھلک ڈالی ہے صبر،شکر،ایثار،سچائی،ایمانداری کے ساتھ بے شمار اوصاف ہیں جن میں سے نمایاں شرم و حیا ہے ۔۔۔شرم و حیا انسان کے اندر پیدائش کے ساتھ ہی نمو پاتی ہے اس لیے جب بچہ پیدا ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو جب اس کی نیپی بدلی جاتی ہے تو بچہ بے ساختہ اپنی ٹانگیں اکٹھی کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ ننگا نہی ہونا چاہتا ۔
ایک جگہ پر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔۔،،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو ناپسند فرماتےتو زبان سے نہ کہتے بلکہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی کیفیت سے پہچان لیتے کہ یہ چیز آپ کو نا پسند ہے،،
بخارییہ حیا کیا ہے ؟؟ یہ ہر انسان کے اندر ایک فطری جذبہ ہے جس کے بہت سارے مفہوم ہیں ،کسی بھی کام کو لوگوں کے سامنے کرتے ہوئے جو جھجھک دل میں پیدا ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔اس جھجھک کو حیا کہتے ہیں حیا کی صفت تمام انبیاء میں موجود تھی۔۔پچھلی کتب میں بھی حیا کی واضح تعلیمات موجود تھیں جہاں تک کہ صحیح بخاری کی حدیث۔3484.
میں موجود ہے جب تو بے حیا بن جائے تو جو جی چاہے کر ۔
( اب ہمارا تمام سوشل میڈیا ایک ہی نقطہ کے گرد گھوم رہا ہے ۔۔جیسے چاہو جئیو۔۔)
جب تک کسی بندے کے اندر حیا والی صفت موجود ہے وہ عیب دار کام نہیں کر سکتا لیکن جب وہ بے حیائی کی طرف لپکتا ہے تو اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہتا
( آج یہی المیہ درپیش ہے کیا بچے، کیا نوجوان کوئی بھی غلط کلام سے روک ٹوک کو پسند نہیں کرتا )
۔حیا کی اقسام
1 .حیائے فطری
2.. حیائے کسبی
حیائے فطری جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہر انسان میں ہوتی ہے وہ پیدائشی جھوٹا،خائن یا بے شرم نہیں ہوتا بس ایک مرتبہ کسی بھی غلط کام کے بعد احساس ندامت نہ ہونا اس کو بے حیاء اور بے شرمی کے زینے پر چڑھا دیتا ہےیہ فطری حیاء کا جزبہ ،محبت کے اظہار کی طرح کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتا ہے ۔
حیائے کسبی سے مراد یہ ہے کہ کوشش کر کے اپنے آپ کو زبان ،ناک، پیٹ،شرمگاہ وغیرہ کی حفاظت کے لیے آمادہ کرنا۔قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
واللہ لا یستحیی من الحق
( اور اللہ حق بات کہنے میں حیا نہیں کرتا )
اور ہم ناحق باتیں بے سوچے سمجھے کرتے ہیں،حق بات کہنے میں سو حجت نکال لاتے ہیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں جن دو لڑکیوں کا تزکرہ کیا ہے وہ قیامت تک کے لیے باعث سعادت ہے اور ہمارے ذہنوں میں حیا کا جو محدود اور جزوی مفہوم ہے اس کی تصحیح ہے ہم حیا سے مراد عام طور پر شرما کے چلنا یا نظر جھکانا کو لیتے ہیں۔قران اور احادیث دونوں میں اس کی نفی ہے ۔
وہ حیا سے چلتی ہوئی آئیں
سے مراد دوپٹہ کا پلو مروڑتی یاشرماتی ہوئی نہیں بلکہ پورے وقار اور اپنی حفاظت کے ساتھ چلتی ہوئی آئیں۔
مراد ہے اگر انسان سے یہی وقار اور نیکی کی حفاظت کا جزبہ ختم ہو جائے تو وہ جانور بن جاتا ہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔،،جس کے اندر حیا کم ہو اس کے اندر تقوی بھی کم ہوتا ہے ۔
( تقوی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوے گناہ سے باز رہنے کو کہتے ہیں )
حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا
جو شخص بندوں سے حیا نہیں کرتا۔۔وہ اللہ تعالیٰ سے بھی حیا نہیں کرتا
( بندوں سے حیا ان کو اجزاء رسانی ان پر الزام تہمت یا ان۔کو مشکلات سے بچانا ہے ان کے حقوق کی درست ادائیگی بھی اسی میں شامل ہے)
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر خطبہ دیتے ہوے فرمایا کرتے۔
،،یا معشر المسلمین استحیو من اللہ ،،اے مسلمانو کی جماعت ! اللہ تعالیٰ سے حیا کیا کرو ۔
اللہ سے حیاء کیسے پیدا کی جاے ؟؟ بتانے والوں نے بے شمار طریقے بتائے ہیں مگر بہترین یہی ہے کہ اپنے دل کو اللہ کی یاد کے قابل بنایا جاے اپنے گناہوں پر نادم ہوا جاے حیا پاکیزگی اور طہارت کی تمام دعاؤں کا اہتمام کیا جاے حیاء کے لیے باقاعدہ کوشش کر کے ہوم ورک کیا جائے اپنے موبائل فون بلکہ چھوٹی بڑی ہر سکرین کو ایسی تحریر یاتصویر سے خوشنما کیا جائے جو اللہ کی رضا اور اس کی بندگی کاباعث بنے۔