عورت کا نام ذہن میں آتے ہی جو پہلا تصور دماغ کے پردے پر ابھرتا ہے وہ شرم وحیا کا پیکر ہے اور جب میں فیشن کے نام پر ان نیم عریاں لباس والی لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے”……
میں جو اپنے نوٹس کھولے پورے انہماک سے ان کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ہادیہ کی بات پر قریب سے گزرتی لڑکیوں کی بغیر آستینوں کی قمیضوں اور ٹخنوں سے اوپر پاجامے دیکھ کر افسوس سے سر ہلانے لگی”ہمیں تو روزانہ یہی سب دیکھنے کو ملتا ہے۔ نت نئے فیشن کے نام پر بگڑی ہوئی شکلیں.. “میں نے دوبارہ پڑھنے پر توجہ مرکوز کی.”لیکن دیکھو نا ان فیشن زدہ لڑکیوں کی وجہ سے شریف خاندان کی لڑکیاں بھی تو بدنام ہوتی ہیں. جو اس بےحیائی کو پسند نہیں کرتیں…. اور حجاب والی تمام لڑکیوں کو بھی ایک جیسی سوچ کا حامل سمجھا جاتا ہے”. ہادیہ نے مزید بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا”ہاں جی ایسا تو ہے لیکن اگر ہم ایسی لڑکیوں کو کچھ سمجھا نہیں سکتی تو ان پر جان کیوں جلائیں؟ ہم نے اپنے عملوں کے ساتھ جانا ہے انہوں نے اپنے اعمال کے ساتھ” میں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا.” سعدیہ بات جان جلانے کی نہیں ہے…. کل جب میں یونیورسٹی سے نکلی تو ابھی بس نہی آئی تھی اس لیے بس ا سٹاپ پر کچھ دیر کے لیے کھڑے ہونا پڑا.. میرے پیچھے کچھ لوگ کھڑے تھے آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے میں نے ان کی گفتگو پر غور نہی کیا کہ کیا باتیں کر رہے. ایک لڑکا میرے برابر پر آکر کھڑا ہو گیا. اور سرگوشی میں کان کے پاس ہوکر بولا… محترمہ ایسا کیا گناہ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے منہ چھپا کر نکلتی ہو کبھی ہمیں بھی دیدار کروا دو.. میرے سٹپٹانے پر وہ اپنے گروپ کے ساتھ قہقے لگانے لگا.. اور شکر ہے بس آگئی اور میں جلدی سے اس میں سوار ہو گئی ورنہ میں نے تو وہی بےہوش ہو جانا تھا پھر بھی سارا راستہ میں کانپتی ہوئی گھر پہنچی.. ہادیہ نے کل کا واقعہ افسردگی سے سنایا تو میں بھی اس کی بات سن کے چونک گئی.”اوہ اس لیے تمہیں ان لڑکیوں پر غصہ آ رہا… یہ جو غیر محرموں کی آنکھوں میں اپنے لیے ستائش ڈھونڈنے کے لیے اپنا حلیہ بگاڑ کر آتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹھٹھے لگاتی ہیں انہوں نے مردوں کی نظر میں اپنی عزت تو ختم کی ہی تھی ان کی وجہ سے ہمارے جیسوں کی عزت بھی دو کوڑی کی ہو کر رہ گئی ہے…… اور کل جو تمہاری روٹ فیلو ہیں وہ کہاں تھیں؟ میں نے پوچھا تو ہادیہ بولی” کل دونوں چھٹی پر تھیں… آئندہ تو میں بھی نہیں آؤں گی اگر وہ دونوں نہ آئیں..” یار ہادیہ مجھے تو ان نوٹس سے کچھ سمجھ نہیں آ رہی چلو اٹھو لائبریری چلتے ہیں.. کچھ اور کتابیں لے لیتے ہیں شاید کچھ سمجھ میں آجائے.. ہادیہ کے حامی بھرنے پر میں نے اپنا سازو سامان سمیٹا اور لائبریری کا رخ کیا..لائبریری میں رش معمول سے زیادہ لگ رہا تھا… کافی لوگ لائبریری سے باہر بھی کھڑے تھے.. میں نے لائبریری کے دروازے میں کھڑے ہو کر تفصیلی جائزہ لیا تو کچھ غیر معمولی صورت حال کا اندازہ ہوا… ورنہ عام طور پر ایسی افراتفری نہیں ہوتی… سٹوڈنٹ لائبریری میں خاموشی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں.. خاموشی سے بک ریڈنگ ہوتی ہے یا نوٹس بنائے جا رہے ہوتے ہیں.،بک ریک سے کتابیں ڈھونڈنے والے بغیر آواز کے کتابیں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں… اور لائبریرین رجسٹر پر اندراج کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں…. لیکن آج کچھ مختلف صور تحال تھی.. لوگ آپس میں اونچی آوازوں میں جیسے چلا رہے تھے.. “سعدیہ ہادیہ لائبریری میں جھگڑا ہو رہا اندر مت جاؤ”
مجھے قریب سے رحماء کی آواز آئی “کیا ہوا ہے یہاں” میں نے پلٹتے ہوئے پوچھا”آؤ کینٹین چلتے ہیں وہاں چل کر تفصیل سے بتاتی ہوں” رحماء نے کینٹین کی طرف رخ کیا تو ہم دونوں بھی متجسس اس کے پیچھے چل پڑیں. “اب بتاؤ بھی کون جھگڑا کر رہا تھا؟ کیا ہوا ہے؟ اس طرح تو پہلے کبھی نہیں ہوا…” ہادیہ کو تفصیل جاننے کی جلدی تھی تو میں بھی تجسس سے بھری بیٹھی تھی” صبر کرو پہلے ایک ایک پلیٹ سموسے اور دہی بھلے آرڈر کر دیں تاکہ باتوں کے درمیان کھایا بھی جائے ورنہ کلاس شروع ہو جانی ہے اور کچھ کھائے بغیر ہی بھاگنا پڑے گا “رحماء آرڈر کرنے کے لیے کاؤنٹر پر گئی اور واپسی اس کی کولڈ ڈرنک کے ساتھ ہوئی… کچھ دیر بعد آرڈر بھی سروو ہو گیا..” کل چھٹی کے ٹائم فورتھ سمسٹر کے دو سٹوڈنٹ ایک لڑکی اور لڑکا لائبریری میں بیٹھ کر کوئی الٹی سیدھی حرکتیں کر رہے تھے اور لائبریری میں سوائے لائبریرین کے کوئی تھا بھی نہیں… اس نے سی سی ٹی وی کیمرے پر انہیں فوکس کیا… اور ان دونوں کو جا کر منع کیا تو وہ دونوں لائبریرین سے جھگڑنے لگےکہ وہ ان کے پرسنل معاملے میں کیوں ٹانگ اڑا راہا.. لائبریرین نے ڈیپارٹمنٹ کے ایچ او ڈی کو شکایت کی.. اس نے آج صبح ان کے والدین کو بلا لیا. “رحماء نے ایک ہی سانس میں تفصیل بتانی شروع کی” اوہ تو والدین بچارے شرمندہ ہوں گے ” میں نے تاسف سے سر ہلایا” جی نہیں وہ آج کل کے ماڈرن والدین ہیں… دونوں سٹوڈنٹ امیر کبیر فیملیز سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں… جو گھر کے ماحول سے سیکھا باہر بھی وہی کچھ کرنا ہے انہوں نے”…. رحماء نے میری بات کی تردید کر دی” اچھا بولو نا پھر کیا ہوا “ہادیہ نے کے پوچھنے پر رحماء نے سلسلہ کلام دوبارہ جوڑا” ان دونوں کے والدین ایچ او ڈی کے پاس آئے… جب وہاں سے معاملہ معلوم ہوا.. تو آگ بگولا ہوئے… کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے بچوں کے پرسنل معاملے میں دخل اندازی کرنے والے… ایچ او ڈی نے انہیں دھمکی دی کہ وہ یونیورسٹی کا ماحول خراب نہیں ہونے دیں گے اس لیے وہ اپنے بچوں کو یا تو اس طرح کی نا زیبا حرکات سے منع کریں یا مہربانی فرما کر کسی اور یونیورسٹی سے ان کی ڈگری مکمل کروا لیں.. .. ایچ او ڈی کے سیدھا جواب دینے پر پہلے تو وہ ان کو دھمکیاں دینے لگے کہ… ہمارے بہت اوپر تک تعلقات ہیں… پھر وہ لائبریری میں لائبریرین پر آ کر چڑھ دوڑے…کہتے تمھاری اوقات کیا ہے اور کیوں تم نے ہمارے بچوں کی کیمرہ سے وڈیو بنائی ہے.. تمھاری وجہ سے ہماری بےعزتی ہوئی ہے.. تمہیں یہاں نہیں رہنے دیں گے… اور فلاں فلاں”… .. رحماء نے پوری تفصیل بتائی جو ابھی وہ خود اپنے بھائی سے سن کر آئی تھی وہ جو اس سے سینئر تھا” اوووہ” میرے اور ہادیہ کے منہ سے اکٹھے اوہ کی آواز نکلی.. ” اور تمہیں یقیناً بھائی سے ساری بات معلوم ہوئی ہے “میرے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلانے لگی” میں تو والدین پر حیران ہوں.. جو اپنے بچوں کا قصور ماننے کی بجائے دوسروں کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں.. اسی لیے معاشرے میں اتنا بگاڑ پیدا ہوتا ہے”… مجھے تفصیل سن کر بہت دکھ ہوا. ” الحمدللہ ہمارے والدین نے ہمیں اچھے برے کی تمیز دی ہے.. اگر انسان گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھے تو وہ ساری زندگی نفس کے دھوکے میں گزار دے.. اور وہ سمجھتا رہے کہ وہ جو کر رہا ہے وہ بلکل ٹھیک ہے.. ہادیہ نے کہا اور ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد بولی” ہم بہنیں جب اماں کے ساتھ کہیں جانے لگیں تو اماں سر سے پیر تک ہمارا جائزہ لیتی ہیں.. اور اکثر کہتی ہیں کہ بن سنور کر جانے والی لڑکیوں کو مرد سر سے پاؤں تک غور سے دیکھتا ہے.. آنکھوں کو بھی سینکتا ہے.. اور اس لڑکی کی ماں کو بھی گالی سے نوازتا ہے.. کہ اس کو گھر سے نکلتے اس کی ماں نے نہیں دیکھا؟ اماں کہتی ہیں وہ آپ کی آنکھوں میں حیا نہیں ڈھونڈتا کہ حیا ہے یا نہیں…. وہ صرف جسم کو نمایاں کرتا لباس اور اس پر میک اپ سے سجے چہرے کو دیکھتا ہے”… ہادیہ نے اپنی امی کے خیالات ہمارے گوش گزار کیے. ” بلکل ٹھیک کہتی ہیں آنٹی.. میری امی بھی کہتی ہیں کہ جب گھر سے نکلو تو سادگی سے نکلو.. اور حجاب کے ساتھ جایا کرو.. تاکہ شیطان کے شر سے محفوظ رہو”… ہادیہ نے کہا تو میں بھی اپنی اماں کی نصیحت بتائے بغیر نہ رہ سکی “میں تو جب حجاب سے نکلتی ہوں تو لگتا ہے کہ کوئی گارڈ ہے میرے ساتھ.. خود با خود ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے. “.. رحماء نے کہا.. اور وال کلاک پر نطر ڈالتے ہی تیز آواز سے بولی..” اٹھو اٹھو لڑکیوں کلاس کا وقت نکل جائے گا. باتوں میں وقت کا پتہ نہیں چلا..” اس کے کہنے پر ہم دونوں نے بھی گھڑی پر نظر ڈالی اور جلدی جلدی اپنے بیگ اٹھا کر آگے پیچھے بھاگنے والے انداز میں کلاس روم کی راہ لی۔