کھانا پکانے والے پروفیشنل افراد سر پر ایک ٹکرا پہنتے ہیں جسے “سفید ٹوپی”کہتے ہیں۔آپریشن کرنے والے افراد یا جراح بھی سر پر ایک ٹکرا پہنتے ہیں جسے bouffant یا سرجیکل ٹوپیاں کہا جاتا ہے۔اور یہ ان کا یونیفارم ہوتا ہے۔
پائلٹ بھی سروں کو ڈھانپتے ہیں اور ان کی ٹوپی aviator hat کہلاتی ہے۔
پولیس والے سر کو جس چیز سے ڈھانپتے ہیں وہ costodian hat کہلاتا ہے۔
اور یہ ان سب کے یونیفارم میں شامل ہوتا ہے۔یہ سارے افراد اپنے سر ،بالوں کو ڈھانپتے ہیں۔کہ یہ ان کی ضرورت ہے۔اور اس میں ان کا تحفظ ہے۔اور کپڑے کے ٹکرےسے اپنے سروں کو ڈھانپنا ان کے لۓ ضروری ہے۔
اور جب ایک مسلمان عورت ایک کپڑے سے اپنے سر کو ڈھانپتی ہے تو اسے “حجاب”کہا جاتا ہے۔یہ اس کے لۓ اس کے پیدا کرنے والے کی طرف سے ایک یونیفارم ہے کہ جب اسے غیر محروموں کے سامنے آنا ہو تو اسے پہنے یا اپنے سر کو ڈھانپے۔
لیکن جب مسلمان عورت اپنا یہ یونیفارم پہنتی ہے تو اسے دہشت گرد بھی کہا جاتا ہے۔اس کپڑے کو سر پر ڈھانپنے کو عورت کو اس کے حقوق نہ ملنے سے تشبیہ دی جاتی ہے ،اس کپڑے کا عورت کے سر پر موجود ہونا عورت پر ظلم قرار دیا جاتا ہے۔
اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ سکھ تو ہمیشہ پگڑی پہنتے ہیں داڑھی ضرور رکھتے ہیں۔
انہیں تو کوئ کچھ نہیں کہتا،
حالانکہ وہ تو خالصتاً اپنے مذہب کے لئے رکھتے ہیں۔
لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ یہ مسلمان عورت کے “حجاب “کے لۓ ایسا کہا جاتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟گو کہ وہ بھی تو ایک کپڑا ہی ہے۔گو کہ وہ بھی تو اس کے پیدا کرنے والے مطابق ایک یونیفارم ہی تو ہے۔
لیکن حقیقتا یہ صرف ایک کپڑا نہیں ہے۔یہ تو رحمت کا حصار ہے،مسلمان عورت کا وقار ہے،اس کی حفاظت ہے،اس کے لۓ رحمت ہے ،اس کی حفاظت ہے،اس کا تحفظ ہے،اس کا نشان وفا و علامت بقا ہے،اور سب سے بڑھ کر مومن عورت کی پہچان ہے۔
کہ جب وہ اسے پہنتی ہے تو دیکھنے والے پہچان لیتے ہیں کہ یہ شریف عورت ہے۔یہ پاک دامن ہے۔
یہ وہی ایک ٹکڑا ہے کہ جب اسے پہن کر ایک عورت باہر نکلتی ہے تو اٹھنے والی نگاہیں بدل جایا کرتی ہیں،احترام سے جھگ جایا کرتی ہیں اور دیکھنے والا دل سے اس عورت کی عزت کرتا ہے۔
اور اسی سے آج مغرب پریشان بھی ہے۔
وہ نہیں چاہتا کہ مسلمان عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاۓ،وہ نہیں چاہتا کہ اسے تحفظ و وقار ملے اور وہ مسلمان عورت کا بڑھتا وقار دیکھنا پسند نہیں کرتا ۔
لیکن ایک خدا کو ماننے والیوں تم اس بات کو سمجھ لینا کہ یہ ایک کپڑے کا ٹکڑا”تمھارے حقوق کے خلاف نہیں بلکہ یہ تمھیں حقوق دینے کے لۓ ہے۔اور اسی میں تمھار اتحفظ ہے۔