رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی معزز اور محترم ہیں تو وہ اولاً ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی ہیں اور پھر خلفاء راشدین ہیں اور ان کے بعد تمام صحابہ کرام اجمعین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے درجے کے کیا ہی کہنے۔سب سے پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ۔صحابہ کرام کون لوگ تھے؟ صحابی وہ شخص ہے جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو ملاقات کی ہو ان کے ساتھ سفر کیا ہو جنگ میں شریک ہوا ہو۔اور ایمان کی حالت میں ہی وفات پائی ہو۔ صحابہ کرام وہ بہترین لوگ تھے جن کو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے چنا۔
”حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے رسولِ اکرمؐ سے سوال کیا کہ بہترین لوگ کون ہیں؟ آپ ؐ نے جواب دیا کہ میرے زمانے کے لوگ، پھر دوسرے اور پھر تیسرے زمانے کے لوگ۔ ”
حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے : یقینا اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمدؐ کا دل سب سے بہتر پایا، اسی لئے انہیں اپنے لئے چُن لیا، اور اپنا پیغام دے کر بھیجا، پھر محمدؐ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو ان کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہترین پایا اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزراء بنادیا، جو اس کے دین کی خاطر جہاد کرتے تھے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں: کسی بھی صحابی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لمحہ گزارنا تم میں سے کسی شخص کے چالیس دن کے عمل سے بہتر ہے۔اور ایک روایت میں ہے کہ اُس کی ساری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔
صحابہ کرام کی عظمت میں کئی قرآنی آیات نازل ہوئیں ۔ارشاد باری تعالی ہے۔
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)) [التوبة: 100].
ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے
((مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا … ))الآية [الفتح: 29]،
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں۔
((لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا)) [الفتح: 18]
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالٰی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔
رضی اللہ کا لقب صحابہ کرام کو خود اللہ تعالی نے دے دیا کہ اللہ ان سے راضی ہو۔ یہ کتنی بڑی بات ہے۔
اسی طرح جن صحابہ کرام نے اسلام میں سبقت کی فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے اور ہر معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ان کا خصوصی درجہ بتایا اور بعد والوں کے لئے بھی اجر کا وعدہ کیا ارشاد ہوتا ہے
((لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ)) [الحديد: 10].
ترجمہ: تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالٰی کا ان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں بھی ہمیں صحابہ کی قدر و منزلت نظر آتی ہے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے
میرے صحابہ کو گالی یا بُرا نہ کہنا، (جان لو کہ )تم میں سے کوئی بھی اُحد پہاڑ کے برابر سونابھی(صدقہ و خیرات میں ) خرچ کرلے تووہ اُن(صحابہ)میں سے کسی بھی ایک کے مکمل یا آدھے مُد (آدھا کلو یا ایک پاؤاناج کےخرچ کرنے کی فضیلت و مقام) تک بھی نہیں پہنچ سکتا(بخاری و مسلم)۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے: ”حضرت عائشہؓ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ اصحابِ رسول حتیٰ کہ حضرت ابوبکر وعمر کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں، حضرت عائشہؓ فرمانے لگیں، تمہیں اس سے تعجب کیوں ہے؟ ان اصحابِِ رسول کے اعمال تو (ان کی وفات کے ساتھ) منقطع ہوگئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کااجر منقطع نہ ہو۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بہترین لوگ فرمایا۔ حدیث میں آتا ہے: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں۔
حضرت سعید بن زید عشرہ مبشرہ کے بارے میں فرماتے ہیں: اللہ کی قسم، صحابہ کرام میں سے کسی کی ایک بھی غزوہ میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ حاضری تم میں سےکسی کے اعمال سے بہتر ہے اگرچہ وہ عمر نوح ہی پالے۔”
حدیث سے ثابت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی جب اسلام قبول کرنے آئے تو بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا پھر کھنچ لیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا تو انہوں نے کہا کہ میرے پچھلے گناہ معاف ہونے کی ضمانت دی جائے تو
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عمرو! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پچھلے تمام گناہ مٹا دیتا ہے؟
قرآن و حدیث سے ہمیں صحابہ کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا اگر کسی معاملے میں آپس کا کوئی اختلاف ہوا ہے تو ان کے درمیان خود اللہ تعالی قیامت کے دن فیصلہ فرما دیں گے۔ آج ہم اس درجے پر نہیں ہیں کہ ہم اس پر تنقید کریں یا پھر کسی بھی صحابی کو برا بھلا کہیں۔ وہ امت کے سب سے بہترین لوگ تھے جنہیں اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لئے چنا تھا۔ ہمارے لئے تمام صحابہ قابل عزت اور تکریم ہیں۔