پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو نظریے کی بنیاد پہ قائم ہوئی ہے اور وہ نظریہ اسلام کا نظریہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے نازل فرمایا ہے. اسلام کی سچائی یا نظریہ پاکستان کی سچائی اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتی جب تک آپ اس کے تعمیری کرداروں کو دل سے سچا، امانت دار اور مخلص قبول نہیں کرلیتے. ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی چیز کے وجود کا تو آپ اقرار کریں اور اس کے بنانے والے یا اس پر محنت کرنے والے کا انکار کردیں.
اسلام اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ قیامت تک باقی رہنے والا دین ہے، جس طرح اس کے بہت زیادہ فضائل ہیں ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے اس دین کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے والوں کے بھی بے شمار فضائل بیان کیے ہیں. بلکہ ان کو تسلیم کرنا اور ان کی طرح ایمان لانا ہی قابل قبول ہے ورنہ آپ کے قول و عمل کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے. لیکن کچھ بدبخت حرمت والے عظیم مہینے میں بھی ان ہستیوں کی توہین، تذلیل کررہے ہیں حتی کہ ان کی توہین کو اپنی مذہبی عبادت بنا رکھا ہے اور یہ عمل ان لوگوں کے ساتھ کیا جارہا ہے جنہوں نے اپنا مال، جان، خون اور اولاد بھی اسلام کی تعمیر و ترقی لٹادی.
بقول شاعر ؎ لٹا دے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہیے.
انہوں نے تو اپنے آپ کو کچھ سمجھا ہی نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی میں سب کچھ قربان کردیا. اس مہینے کی تعظیم میں یہودی، مشرک بھی قتل و غارت، لوٹ مار اور ایسا کو کوئی کام نہیں کرتے تھے کرتے تھے جو حرمت والے مہینوں کی شان کے خلاف ہو.
لیکن ملکِ پاکستان جو نظریہ اسلام کی بنیاد پہ بنا اس کے دارالحکومت میں کھڑا ایک چوڑا، چمار خبیث النفس تمام حدیں پار کرتے ہوئے وہ کلمات کہتا ہے جسے نہ قلم لکھ سکتا ہے، نہ زبان ادا کرسکتی ہے اور نہ کانوں کو سننے کی ہمت ہے اور آنکھیں وہ منظر دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتیں. وہ شخص بھری مجلس میں کہتا بھی ہے اور کہہ کر بڑے پرسکون انداز میں گھومتا پھرتا بھی ہے، اہل اقتدار کی نہ نیندیں اڑتی ہیں اور نہ ان کے آرام میں خلل پڑتا ہے لیکن جب کوئی دیوانہ گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم،گستاخِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کے انجام تک پہنچا دیتا ہے تو تمام ادارے، سیاست دان، انسانی حقوق کی تنظیمیں، عالمی لونڈی اقوام متحدہ سب کے سب دہائیاں دینے شروع کردیتے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو آزاد خیال کہنے والے بھی میدان خالی دیکھ کر کود پڑتے ہیں.
کیا حکومتی وزیروں، مشیروں، عدالت، پولیس، فوج کی توہین کرنے والا بھی ایسے ہی سینہ چوڑا کیے گھومتا پھرتا ہے یا پھر حضور صلی الله عليه وسلم اور ان کے جانثار ساتھیوں کی تمہارے نزدیک اپنے اداروں جتنی بھی عزت نہیں؟
ریاست ملکی امن و سلامتی کی سب سے زیادہ ذمے دار ہے پھر کیوں ایسے بدبختوں کے خلاف از خود نوٹس نہیں لیے جاتے؟
کیوں انسانی حقوق کی تنظیمیں متحرک نہیں ہوتی؟
جب کوئی دیوانہ اپنا کردار ادا کردے تو مقامی ادارے ایسے پھرتی دکھائی دیتے ہیں جیسے کتا ہڈی کے پیچھے دوڑتا ہے. پوچھنے والا ہو بھیا! اس وقت آپ کونسی بے غیرتی کی گولی کھا کر سورہے تھے جب یہ کالے کھٹمل سرعام حکومتی رٹ کو چیلنج کررہے تھے؟
امریکن لونڈی اقوام متحدہ کے پیٹ میں اچانک مروڑ کیوں اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں؟
انسانی حقوق کی طوائفیں جو اس سے پہلے ستو پی کر سورہی تھیں کیوں شور مچانا شروع کردیتی ہیں کیا ان کی بہن کی بارات آرہی ہے یا پھر اپنے باپوں کو خوش کرکے ڈالر سمیٹنے کا سنہرا موقع مل گیا ہے؟
عوام کبھی گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور گستاخ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برداشت نہیں کریں گے، اقتدار کے مزے لوٹتے حکمرانوں سے درخواست ہے کہ وہ فوراً ایسے تمام واقعات کی روک تھام کے لیے کردار ادا کریں نہیں تو پھر علم دین، عامر چیمہ جیسے غازی تو اپنا کام کرتے رہیں گے.
قوانین پاس کرنا اگرچہ بڑی خوشی کی بات ہے لیکن یہ خوشی اس وقت زیادہ ہوگی جب ان پر عمل شروع ہوگا اور اس کے فائدے ملنا شروع ہوں گے. عوام بھی جہاں کہیں گستاخی کا کوئی واقعہ ہو فورا انفرادی و اجتماعی طور پر مقامی اداروں کو رپورٹ کریں تاکہ ملک خداد جو مختلف بحرانوں میں جکڑا ہوا ہے نئی افراتفری کا شکار نہ ہو۔