جنتی نوجوانوں کے سردار

روز ازل سے ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کا ضابطہ رہا ہے کہ محبوبان الٰہی کو امتحان اور آزمائش کی سخت ترین منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور جاں نثاری ،تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر کبھی اپنی قربانی دینے والے کو ذبیح اللہ کا لقب ملتا ہے تو کبھی باطل کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہونے والے کو جنتی نوجوانوں کی سرداری ملتی ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت نے ہمارے ضمیروں کو بیدار کیا، دلوں کو بدلا،ذہنی انقلاب کی راہیں ہموار کیں اور انسانی اقدار کی اہمیت کو متعارف کروایا ہے ۔

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی تو اس خوشخبری کو سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دی، پیغمبر علیہ السلام کا مقدس لعاب دہن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ کی غذا بنا، ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔ آپ کی  پیدائش  سے خاندان میں انتہائی  خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی۔

خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں نواسوں کیساتھ انتہائی محبت فرماتے ، کبھی سینہ پر بیٹھاتے ، کبھی کاندھوں پر چڑھاتے ، نماز میں سجدہ کی حالت میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پشت مبارک پر چڑھ جاتے تو سجدہ طویل کردیتے یہاں تک کہ بچہ خود سے پشت پر سے علیحدہ ہوجاتا، اور جب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ مسجد کے دروازے سے داخل ہوتے ہوئے زمین پر گر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ پڑھتے ہوئے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لائے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے ہوئے کہادیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور ان سے محبت رکھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں، جو شخص حضرت حسین سے محبت کرے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ محبت فرمائے گا‘‘۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اہل بیت میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کو ن ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے کہا کرتے تھے میرے بیٹوں کو میرے پاس لے آؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سینے سے لگا لیتے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کو کندھے پر اٹھایا ہوا تھا کہ ایک شخص نے کہا ’’کیا ہی اچھی سواری ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ سوار کتنا اچھا ہے‘‘۔

مگر جب آنے والے حالات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو برس پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل امین آئے اور مجھے بتایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی، جبرائیل اس جگہ کی سرخ مٹی بھی میرے پاس لائے جہاں اسے قتل کیا جائے گا۔ اور پھر جب اسلامی خلافت کے بعد بادشاہت کا دور آیا تو حضرت سیدنا امیر معاویہ کے فرزند نے اپنے عظیم والد گرامی کے مشن سے باغی ہوکر اسلامی حکومت کو قیصروکسریٰ کی طرز پر ملوکیت سے بدلنا چاہا اور اس پر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت چاہی، یہی وہ موڑ ہے جو تاریخ اسلامی میں واقعہ کربلا کا سبب بنا۔ اسلامی نظام شریعت کے روشن چہرے کو یزید شہنشاہی کے زعم میں مسخ کرنا چاہتا تھا۔جس دین کی اکملیت فخر موجدات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہو گئی تھی۔

اسی دین کے اصول حرام و حلال میں یزید اپنے نفس کے فیصلے نافذ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے سامنے دو نمونے تھے، اسلامی نظام حکومت کا نمونہ اور کسریٰ کے استبداد کا نمونہ۔ اس نے اسلامی نظام حکومت کا نمونہ نہیں اپنایا بلکہ اس نے کسریٰ کی آمریت کو نمونہ عمل بنایا۔ اسی کی تصدیق کیلئے اس نے نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مجبور کرنا چاہا، وہ چاہتا تھا کہ شراب و شباب کی اجازت دیدی جائے، زنا و سود کی اجازت دیدی جائے ، اسلامی تعزیرات میں رد و ترمیم کر دی جائے، شریعت کو طبیعت کے مطابق ڈھال لیا جائے اور ان سب کے باوجود امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیعت یزید کرکے یزیدی قوانین کو تسلیم کر لیں۔ معاملہ چونکہ اسلامی قوانین کی حفاظت کا تھا، یزید شریعت اسلامی میں تحریف چاہتا تھا، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیعت کر لینا مثال بن جاتا، یزیدی فتنے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا ذریعہ بن جاتا، اسلام کا وہ روشن چہرہ باقی نہ رہتا جس کیلئے خاتم الانبیا ء محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مستقبل کیلئے ایک مثال قائم کر دی کہ یزید کی بیعت دراصل باطل کی توثیق ہے اس لئے آپ نے بیعت یزید سے صاف انکار کرکے دنیا کو صدق و وفا کا وہ عظیم درس دیدیا کہ ہر باطل کے مقابل حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق کی علامت بن چکے ہیں۔ باطل چاہے اسلامی کلمے کے ساتھ آئے یا صیہونیت کی شکل میں، ایک مسلمان کیلئے سچے اسلامی احکام ہی کافی ہیں، انہیں کی پیروی میں اس کیلئے نجات ہے۔

اس دنیائے فانی میں اپنے مکرو فریب اور جبروتشدد سے حاصل کی ہوئی قوت کے بل بوتے پر کسی کا بظاہر کامیاب نظر آنا اور اقتدار حاصل کرلینا، اصل کامیابی نہیں۔ بلکہ حقیقی اوردائمی کامیابی یہ ہے کہ انسان کو تخت ملے یا تختہ وہ دنیاوی جاہ وحشمت کے لئے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا دامن ہرگز نہ چھوڑے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ’’ بادشاہوں کی بدترین صفات یہ ہیں کہ دشمنوں سے ڈریں، بے سہارا اور ناداروں پر رحم نہ کریں اور عطا و بخشش کے وقت بخل سے کام لیں‘‘۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ باطل کو ترک کرکے حق پر ڈٹا جائے۔

ہمیشہ دین حق کا علم بلند کیا جائے، چاہے اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان راہ خدا میں نچھاور کرکے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتا دیا کہ جب بھی اسلام کے مقابل یزیدیت سر ابھارے میری شہادت سے درس لے کر استقلال کی تاریخ رقم کر لینا، باطل کے آگے سرنگوں نہ ہونا۔ جان دیدینا مگریزیدیت کی اطاعت قبول مت کرنا۔ تاریخ انسانی میں ایسے خونی سانحہ کی مثال نہیں ملتی، جان دینا آسان نہیں، عزیزوں کو قربان کرنا بڑا مشکل کام ہے ۔ یہ سب صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور دین حق کی سربلندی کیلئے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول کیا۔ اورامت محمدیہ کو بتا دیا کہ خودداری یہ نہیں کہ اسلام سے جدا راہ قبول کر لی جائے ،خودداری تو یہ ہے کہ راہ حق پر چلا جائے چاہے اس کیلئے اپنے لہو سے ہی چمن کی آبیاری کرنی پڑے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لہو سے ایک درخشاں تاریخ لکھ دی ہے جس کی سرخی آج بھی ہویدا ہے۔

اک پل کی تھی بس حکومت  یزید کی

صدیاں حسین ؓ کی ہیں زمانہ حسین ؓ کا

25 تبصرے

جواب چھوڑ دیں