حالیہ بارشوں نے شہر کراچی کو ایک بار پھر یتیم و لاوارث شہر ثابت کر دیا۔ کراچی کی مثال بلاشبہ اس گائے کی سی ہے جس کا دودھ تو سب پیتے ہیں مگر اس کی دیکھ بھال کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ تین جماعتوں کے سیاسی دنگل نے اس شہر اور اس کے باسیوں کوجس اذیت ناک حال میں پہنچا دیا ہے اس کا عملی نمونہ آج شہر کی ہر شاہراہ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تین سے چار فٹ کھڑا پانی، ابلتے ہوئے نالے، کچرے کے ڈھیر اور تعفن زدہ گلیاں۔۔۔ مگر اصل سوال “ہڈی” پر لڑتے سیاست دانوں سے نہیں بلکہ اس شہر کی با شعور اور تعلیم یافتہ عوام سے ہے کہ وہ کب تک قاتلوں ، بھتہ خوروں اور کرپٹ مافیا کو اپنے سروں کا تاج بنا کر رکھیں گے؟؟ مسند اقتدار جیسی با عزت اور مقدس جگہ کو چوروں اور نا اہلوں کے سپرد کر کے “اچھے” کی امید رکھنا پتھر سے دودھ نکالنے کے مترادف ہے۔
کراچی ملک کا معاشی حب ہےاور سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ ڈھائی سے تین کڑوڑ نفوس پر مشتمل یہ شہر ملکی معیشت کو ستر فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے۔ کراچی کی اہمیت اس بات سے ہی واضح ہے کہ یہاں ہر قومیت اور نسل سے تعلق رکھنے والا طبقہ موجود ہے۔ اسی لحاظ سے کراچی کو مِنی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی کی اہمیت یہیں تک محدود نہیں۔ کراچی غریب پرور اور مہمان نواز شہر تھا جہاں ملک بھر سے ضرورتمند روزی کی تلاش میں آتے تھے اور اپنا رزق کماتے تھے۔ کراچی روشنیوں کا شہر تھا جہاں کبھی رات نہیں اُترتی تھی۔ ساٹھ اور اسی کی دہائی تک کراچی ترقی کی منازل طے کرتا وہ شہر تھا جس کو ماڈل سٹی کے طور پر پہچانا جاتا تھا اور جس کی مثال سامنے رکھ کر کوریا اور جاپان میں نئے جدید شہر بسائے گئے۔ مگر آج وہی شہر اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہے اور ” اپنوں ” ہی کے ہاتھوں ذلت و بربادی کا شکار ہے۔
کراچی سے زیادتی کا آغاز ایوب دور سے شروع ہوا۔ جب ایک ڈکٹیٹر نے تمام تر اصول و ضابطوں کو روندتے ہوئے کراچی سے اس کا وہ مقام و مرتبہ چھینا جو اس کو بانی پاکستان قائد اعظم نے عطا کیا تھا۔ کراچی اس وقت ملک کی واحد بندرگاہ اور واحد بین الاقوامی ہوائی اڈے کا حامل شہر تھا اس کے باوجود ملک کا دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنا تعصب اور نفرت انگیز اقدام کے سوا کچھ نہ تھا۔ کراچی کے وجود کو مزید چِرکے اس وقت لگے جب جنرل ضیا الحق کے دور میں کراچی میں لسانی فسادات کی آگ بھڑکائی گئی۔
نوے کی دہائی سے شروع ہونے والی یہ آگ دو سے ڈھائی عشروں تک بھڑکتی رہی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق کئی ہزار جانوں کو نگل گئی ۔ سندھ رینجرز کے سابق سربراہ جنرل محمد سعید نے اے آر وائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کراچی میں گزشتہ 30 سال کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ شاید دو ملکوں کے مابین جنگوں میں بھی اتنی جانوں کا ضیاع ہونا ممکن نہیں۔ لیکن ملک کے کارپردازوں کو اس کے بعد بھی رحم نہ آیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اتنی بڑی تباہی سے نکلنے کے بعد کراچی کے انفرا اسٹرکچر پلاننگ اور ڈیولپمنٹ پر خصوصی اور فوری توجہ دی جاتی۔ مگر اس کے بر عکس کراچی کو ایک بار پھر سیاسی نورا کشتی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر انصاف اور حقوق کی دہائیاں دے رہا ہے۔ملک کو ستر فیصد ریونیو مہیا کرنے والے اس شہر کی نصف سے زائد آبادی پینے کے صاف پانی کو ترس رہی ہے۔ کراچی کی آبادی کو روزانہ 1200 ملین گیلن پانی درکار ہے، جبکہ کراچی کو صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔
زیادتیوں کا یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں۔ شہر کو بجلی فراہم کرنے والا ادارہ قاتل ادارہ بن چکا ہے ۔ ایک طرف ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر ہونے کے باوجود بیشتر علاقوں میں دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہے دوسری طرف شہر کے بیشتر پولز سے ارتھ وائرنگ غائب کر کے کے الیکٹرک نے شہریوں کو کرنٹ سے اموات کا جو انوکھا “تحفہ” دیا ہے، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ ستم بالائے ستم اس پر وفاقی و صوبائی حکومت کی مجرمانہ خاموشی حیرت انگیز ہے۔ عوامی تاثر یہی ہے کہ کے الیکٹرک نے کراچی کے تمام پاور بروکرز کو ” مال” دے کر خاموش کروایا ہے۔ اس تاثر کو آسانی سے جھٹلایا جانا ممکن نہیں۔ پقنی بجلی جیسی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ ملک کا سب سے بڑا شہر ٹرانسپورٹ کے بنیادی نظام سےمحروم ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی دو کڑوڑسے زائد آبادی کا حامل شہر ٹرانسپورٹ کے جدید و مربوط نظام کے بغیر موجود نہیں۔
مگر کراچی کا حال یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں چلنے والی سرکلر ریلوے کو “نا معلوم” وجوہات کے تحت بند کر دیا گیا جس کے بعد ٹرانسپورٹ کا کوئی میجر پلان نہ بن سکا۔ لاہور کے لئے اورنج ٹرین منصوبہ اور پشاور میں بی آر ٹی منصوبہ تکمیل پا چکا مگر کراچی کی صورتحال فریاد کناں ہے۔ تاحال اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ۔انتظامی غفلت کا حال یہ ہے کہ شہر میں جا بجا کچرے کے ڈھیر ہیں اور سالوں سے نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث ذرا سی بارش شہری سیلاب (اربن فلڈنگ) کی صورتحال پیدا کر دیتی ہے۔
وفاقی صوبائی اور مقامی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی نے کراچی کو مسائل کا گڑھ بنا دیا ہے۔ دو دن پہلے ہی رخصت ہوتے مئیر کراچی وسیم اختر نے آنسووں کے ساتھ اپنی الوداعی پریس کانفرنس کی۔ مگر سوال یہی ہے کہ یہ آنسو ان کو اپنی مدت اقتدار کے دوران کیوں نہ آئے؟ اگر اختیارات میں کمی کے جواز کو درست مان بھی لیا جائے تو “اپنے” ہونے کا تقاضا یہ تھا کی آپ مستعفی ہو کر نجی حیثیت میں شہر کی خدمت کرتے۔ مگر حقیقت یہ کہ جہاں خدمت کے بجائے اقتدار کے مزے لوٹنے کی نیت ہو وہاں آنسو صرف کرسی چھن جانے کے بعد ہی آتے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں کراچی کے عوام نے تبدیلی کی آس میں پی ٹی آئی کو جھولی بھر کے ووٹ دئیے۔ قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی21 نشستیں تحریک انصاف کو کراچی سے ملی ہیں ۔ مگر کراچی کے حوالے سے پی ٹی آئی کا رویہ یہ ہے کہ وہ سارا ملبہ صوبائی حکومت پر ڈال کر فارغ ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا کہ کراچی کے حوالے سے اہم آئینی پیشرفت پر غور جاری ہے۔ اگر یہ اہم آئینی پیشرفت کراچی کو صوبے کا درجہ دئیے جانے کے حوالے سے ہے تو یہ لالی پاپ کافی عرصے سے عوام کو دی جا رہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے مسائل کا اصل حل اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔
صوبے کی بحث چھیڑ کر ایک نئی لسانی تفرقہ بازی کو شروع کرنے کے بجائے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا ازسر نو جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ صوبہ نہ سہی کراچی کو کم از کم میٹرو پولیٹن سٹی کا درجہ دے کر لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط کیا جائے۔ ضلعوں اور یونین کونسلز کی سطح تک اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنایا جائے۔ دنیا بھر میں شہروں کا نظام لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت چلایا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت دو سال کا عرصہ گزار چکی۔ بقیہ تین سال میں اگر حکومت کراچی کے بنیادی مسائل کے حل میں ناکام رہی تو یہ پی ٹی آئی کی سب سے بڑی سیاسی ناکامی ہو گی۔