ہم عام طور پر معاشرے میں موجود رسم و رواج اور روایات کی اندھا دھند تقلید کرتے رہتے ہیں۔ جس وجہ سے معاشرے میں موجود برائیوں کا خاتمہ تو دور کی بات ہے الٹا وہ لوگوں کے اذہان میں پختگی اختیار کر لیتی ہیں۔آہستہ آہستہ ہم اس برائی کو برائی سمجھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم معاشرے کی تقلید میں ان روایات کو اپنائی رکھتے ہیں۔ لیکن کبھی بھی ٹھہر کر اپنے آپ سے یہ سوال نہیں پوچھتے کہ ” آیا کہ یہ عمل جو میں کر رہا ہوں یا کرنے والا ہوں، اس کی ہمارے دین میں کیا حیثیت ہے؟” جبکہ تقلید کا حق تو صرف اور صرف اللّٰہ اور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو حاصل ہے۔
مسلمان کے لیے قابل تقلید رسم و رواج اور روایات صرف اور صرف وہی ہیں جو کہ دین اسلام کے دائرہ کار میں آتے ہوں۔ ہم معاشرے میں بہت سی خرابیوں پر روتے اور شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ان کی بیخ کنی تب ہی ممکن ہے جب ہم شعوری طور پر ان کو اپنے اعمال سے نکالنے کی کوشش کریں۔ اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ” اب تو یہ چلتا ہے۔” جبکہ اس جملے سے غلط معاشرتی رویوں کا سدباب نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اس لیے اپنے معاشرے سے ہر قسم کی برائیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معیار معاشرے کو قرار دینے کی بجائے، معیار، حق یعنی کہ اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کو قرار دیا جائے۔ ہر شخص شعوری طور پر اپنے عمل کا موازنہ اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات اور احکامات سے کرے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: “اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو”۔
نیز یہ بھی فرمایا کہ: ” بے شک تمھارے لیے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے”۔
یہ بات سمجھنے کے لیے بہت آسان ہے کہ اگر ایک شخص کو ایک کلو چینی مانپنی ہے تو اس کو اس عمل کے لیے ایک کلو کا معیاری وزن (ویٹ) درکار ہوگا۔ اگر وہ ایک کلو کے معیاری وزن کی جگہ غلط وزن استعمال کرے گا تو اس کے مانپ میں غلطی ہو گی۔ اسی طرح اگر تقلید کے لیے معاشرے کو معیار بنایا تو نقصان کا اندیشہ ہے۔ لیکن اگر معیار دین ہوا تو آہستہ آہستہ ایک پر سکون اور برائیوں سے پاک معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔