کراچی کو دنیا بھر میں روشنیوں کے شہر کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس کی شناخت بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم و دیگر گھناونے جرائم کے گڑھ کے نام سے مشہور ہوئی اور کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔ عین ممکن تھا کہ کراچی پہلی پوزیشن پر آجاتا لیکن رینجرز نے ٹارگیٹڈ آپریشن کے ذریعے ایک بار پھر شہر قائد کو امن کے ٹریک پہ ڈال دیا۔ یہاں یہ ذکر ضروری امر ہے کہ ان دنوں نہ صرف کراچی بلکہ پورا پاکستان ہی دہشتگردی و بدامنی کی لہر کی لپیٹ میں تھا جس کی فنڈنگ و سرپرستی پڑوسی دیس کررہا تھا، ملکی سلامتی کے اداروں نے جان جوکھوں کا سامنا کرکے نہ صرف دہشتگردی بلکہ دشمن قوتوں کے عزائم کو شکست فاش دی۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے شہر تو بہت سے ہیں لیکن کراچی کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے چونکہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور مصنوعی و منظم دہشتگردی نہ صرف داخلی عدم استحکام بلکہ پاکستان کی معیشت پر حملہ تھا اور اس پہ مستزاد یہ کہ کراچی میں پہلے سے ہی ایک فالٹ لائن کو تخلیق کیا گیا تھا جس وجہ سے دشمن کو اپنے مذموم حصول میں آسانی تھی۔ ایک اور سوال یہ بنتا ہے کہ کراچی بدامنی میں متحدہ عسکری ونگ کے ساتھ ساتھ حکومتی سرپرستی میں لیاری گینگسٹر اور ANP کی عسکری ونگ برابر کی شریک تھیں لیکن مخصوص اینکرز (آج کل فوج و کپتان کے سخت مخالف ہیں) نے صرف متحدہ کو ذمہ دار کیوں ٹھہرایا؟
اگر اس بات پر غور کریں تو ایک بات رہ رہ کر دل میں کھٹکتی ہے کہ یہ کراچی فالٹ لائن کو ابھارنے کا منصوبہ تھا تاکہ مہاجروں میں ناانصافی کو لیکر رنجش پیدا ہو اور وہ بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرح اٹھ کھڑے ہوں لیکن جب 22 اگست 2016 کو بانی متحدہ نے مردہ باد کا نعرہ لگایا تو مہاجروں نے اسے یکسر مسترد کرتے ہوے اسے اجداد کی قربانیوں پہ حملہ قرار دیا، 22 اگست 2016 ملکی تاریخ کا اہم ترین دن ہے جب کراچی کے مہاجر دوسری بار بانیان پاکستان بنے، بظاہر معاملہ تو یہی تھا کہ دہائیوں پہ مشتمل محرومیاں بھی ہیں اور منظم لسانی نفرتیں بھی ایسے میں لوگ ریاست کے خلاف کھڑے ہونگے قانون کو ہاتھ میں لیں گے تو ریاست کی طرف سے بھی طاقت کا استعمال ہوگا یوں معاملہ بگڑتا رہیگا لیکن سلام ہے بانیان پاکستان کی اولادوں کو ان کے شعور کو کہ انتہائی فہم کا مظاہرہ کیا اور ریاست کے ساتھ کھڑے ہوکر پاکستان کے معاشی حب کو تباہ ہونے سے بچایا، کون ہے جو نہیں جانتا کہ ریاستیں معیشت سے چلتی ہیں نہ کہ جمہوریت یا طاقت سے۔ زرا سوچئے اگر ہزار یا پانچ سو افراد بھی ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تو معاشی حب کیا معاشی حب رہتا؟
گذشتہ کچھ دنوں سے ایک بار پھر کراچی اپنے مسائل کو لیکر ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور تمام حلقے اس پر خوب سیاست چمکارہے ہیں، بظاہر یہ سیاست نظر آرہی ہے لیکن حقیقتاً کراچی کے مسائل ایک نئی فالٹ لائن کا اژدھا بنتے جارہے ہیں، سندھ حکومت پر الزام ہے کہ اس کا شہری سندھ سے سلوک سوتیلی ماں جیسا ہے، اس کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک منظم انداز سے بانیان پاکستان کی اولادوں کو محرومیوں کی تاریک دیوار میں چنا جارہا ہے، یہ ایک غیر اعلانیہ پالیسی ہے کہ سندھ میں مہاجروں پر گورنمنٹ سروسز کے دروازے بند ہیں، سندھ حکومت کے تحت جتنی بھی بھرتیاں کی جاتی ہیں وہ زیادہ تر سیاسی بنیاد پر ہوتی ہیں اور من پسند افراد کو ہی نوازا جاتا ہے۔
جبکہ SPSC کے ذریعے اعلیٰ صوبائی پوسٹوں میں کھلے عام تعصب برتا جاتا ہے جس کو سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں لکھا ہے، آج تک جتنے بھی کمیشن ہوے سو کے سو فیصد کے نتائج کو دیکھا جائے تو شہری سندھ کی پوسٹوں کو خالی چھوڑ کر دوبارہ مشتہر کیا جاتا ہے پھر اکثر ان پہ دیہی سندھ کے افراد کو جعلی ڈومیسائل کے ذریعے بھرتی کرلیا جاتا ہے نتیجتاً نااہل افراد اداروں میں پہنچ کر صوبائی انتظام کو خاک میں ملا رہے ہیں اس کا اعتراف کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوے خود مراد علی شاہ کرچکے ہیں کہ صوبے کو چلانے کے لیے ان کے پاس قابل افسران کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے مسائل پہ کنٹرول کرنا مشکل ہے، اس کے علاوہ تعلیمی لحاظ سے کسی کو محروم کرنے سے بدتر سوچ کوئی نہیں، ماضی میں دہائیوں تک حیدرآباد میں شہری یونیورسٹی پہ سیاست ہوتی رہی، کراچی میں بھی سرکار کی طرف سے تعلیمی مواقع نہ ہونے کے مترادف ہیں ساڑھے تین کروڑ کی آبادی اور صرف دو یونیورسٹیاں ہیں۔
سندھ حکومت بارہا عوامی مطالبے کے باوجود کسی یونیورسٹی کے قیام میں سنجیدہ نہیں، شہریوں سے لوٹ مار تو معمول کی بات ہے، پانی جو زندگی کا بنیادی جُز ہے وہ تک میسّر نہیں، بجلی کی حالت سے سب واقف ہیں، سڑکوں و سیوریج کا نظام آئی سی یو میں ہے، ٹرانسپورٹ مافیا کو خوش رکھنا شاید زیادہ ضروری ہے اس لیے کوئی سرکاری منصوبہ نہیں دیا گیا اور عدلیہ کو بھی سرخ سلام کہ کھٹارہ بس مافیا کی خواہش پر چنگ چی رکشہ پر پابندی لگادی گئی جس سے ایک طرف تو ہزاروں لوگ بیروزگار ہوگئے دوسری طرف شہری ایک آرامدہ سواری سے محروم ہوگئے۔
شہر کی موجودہ پھیلاو کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے 2003 سے 2007 تک متحدہ کے کچھ افراد نے چائنہ کٹنگ کی اور پھر 2008 کے بعد سندھ سرکار کے بلیو آئیڈ بھی پیچھے نہ رہے، سینکڑوں بستیاں ایسی ہیں جو غیرقانونی طریقے سے آباد ہوئیں اور سرکار نے سیاسی فوائد کے چکر میں بیک جنبش قلم انہیں قانونی کردیا اور ستم ظریفی دیکھیں کہ ناجائز تجاوزات کے نام پر بیسیوں سال سے لیزڈ مکانات و مارکیٹیں گرادی گئیں جس سے مہاجروں میں ایک محرومی و ناانصافی کا عنصر مزید بڑھا، یہی وجہ ہے کہ آفاق احمد نے کہا کہ “اتنی ناانصافیوں پر تو ملک بن جاتے ہیں ہم نے تو صرف صوبہ مانگا ہے”۔ حیدر عباس رضوی کے مطابق سندھ حکومت مہاجروں کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلی ہوئی ہے اور لسانی بنیاد پر کیماڑی ضلع کی منظوری اسی کا تسلسل ہے۔
کراچی کی مخدوش صورتحال اور ناانصافیوں کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر صوبے کا مطالبہ سامنے آیا تو جواباً سندھ سرکار نے بھی سندھ کارڈ کھیلنا شروع کردیا جوکہ معاملے کا حل نہیں، جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں کہ دہائیوں پر محیط ناانصافیوں کی وجہ سے کراچی ایک فالٹ لائن بن چکا ہے اور نجانے سندھ سرکار کیوں مہاجروں کو ایک فالٹ لائن بنانے پہ تُلی ہے جس کا ادراک بخوبی سلامتی کے اداروں کو ہے لہٰذا اب وقت کی ضرورت ہے کہ پہلے تو میرٹ و شفافیت کا نظام رائج کرکے فالٹ لائن کو ختم کیا جائے تاکہ کوئی اسے ایکسپلائٹ نہ کرسکے پھر بعد میں سیاست بھی ہوتی رہیگی جیسا کہ اس بات کی گونج سنائی دے رہی ہے کہ کراچی PTI کے حوالے کیا جارہا ہے اگر ایسا ہوا تو غالباً منفی اثرات ہی مرتب ہونگے۔
کیونکہ کراچی کا مزاج باقی پاکستان سے الگ ہے یہاں چودھریوں، وڈیروں، الیکٹیبلز موجود نہیں ہے لوگ میرٹ و قانون کی بالادستی کو پسند کرتے ہیں لہٰذا کراچی کا حل بھی میرٹ و قانون کی عملی بالادستی و نفاذ ہے نہ کہ سیاسی انجینئرنگ۔ میرٹ و قانون کی عملداری ہوگی تو دنوں ہفتوں میں تمام معاملات بھی حل ہوجائینگے اور کراچی کے ساتھ پاکستان بھی ترقی کریگا، دوم یہ کہ اس کے اثرات سے ملک کے دیگر علاقوں تک پہنچیں گے۔