iو اے ای کہنے کو ایک مسلم ملک ہے مگر اس کی تمام تر حالیہ پالیسیاں امریکا بھارت اور اب شیطانی تکون کے مفادات کو تحفظ دینے میں صرف ہو رہی ہیں۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ شیطانی تکون ((امریکہ بھارت اور اسرائیل)) نے عرب ممالک بالخصوص یو اے ای کو اپنے حصار میں اس طرح جکڑا ہے کہ مسلم امہ کا اتحاد اور یکجہتی ایک سوالیہ نشان میں تبدیل ہو چکا ہے۔حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر کے مسلم امہ کے ساتھ بدترین تاریخی غداری کا ارتکاب کیا ہے۔ اس غداری کے ہولناک نتائج مستقبل میں ہر سطح پر نظر آئیں گے۔ متحدہ عرب امارات کے بعد دیگر عرب ممالک کی طرف سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی خبروں نے جہاں مسلم امہ کے ایک ہونے کے تصور کو مسخ کر دیا ہے وہاں دوسری طرف اس امر کے واضح امکانات نظر آئے ہیں کہ مستقبل قریب میں دنیا صریحاً دو بلاکس میں تقسیم ہونے جا رہی ہے۔
ایک طرف امریکہ بھارت اسرائیل اور عرب ممالک ہیں جبکہ دوسری طرف چین ترکی پاکستان ملائیشیا اور ایران ہیں۔دو بلاکس کی اس تقسیم کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات نظر آتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکومتوں نے عرب ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کر کے اپنے اندرونی سیاسی بحران کو کم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودہ حکومت ایک جانب افغانستان میں بدترین شکست کا شکار ہونے کے بعد مسلسل تنقید کی زد میں تھی دوسری طرف کرونا بحران سے نمٹنے میں ناکامی نے ٹرمپ حکومت کے گراف کو تیزی سے نیچے گرا دیا ہے مگر عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سمجھوتا ہوتے ہی امریکہ میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ ٹرمپ امن کے نوبیل انعام کے مستحق ہوگئے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت کو بد عنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ مگر اب عرب امارات کے ساتھ حالیہ معاہدے کے بعد نیتن یاہو کو بھی سیاسی تقویت ملنا یقینی ہے۔
مگر اس منظر نامے میں اصل سوال یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اس معاہدے سے کیا فوائد حاصل کیئے ہیں؟ بظاہر اس معاہدے کو “امن سمجھوتے “کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت اسرائیل مغربی کنارے میں امن قائم کرنے کا ذمہ دار ہو گا مگر یہ حقیقت بچہ بچہ جانتا ہے کہ امن کےنام پر اس قسم کی ڈھکوسلے بازی کوئی نیا کھیل نہیں۔ 1993 میں ہونے والے اوسلو امن معاہدے کا انجام سب کے سامنے ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ دو عشروں میں اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں حتیٰ کہ معاہدے کے فریق یاسر عرفات کو ان کے اپنے ہی گھر میں سالوں محصور رکھا گیا۔ بالآخر مبینہ طور پر اسرائیل نے ان کو زہر دے کر مار دیا ۔ اسرائیل نے اب تک خود کو ایک ایسی ریاست کے طور پر ثابت کیا ہے جس کے لئیے بین الاقوامی قوانین اور امن معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسرائیل جب چاہے اس معاہدے کو کوڑے دان میں پھینک سکتا ہے۔
اسرائیل کی نیت نیتن یاہو کے اس بیان سے ہی واضح ہے جس میں انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر ترک نہیں کرے گا۔اس تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ عرب امارات کو فلسطینیوں کے حقوق یا امن کے قیام سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ درحقیقت اسرائیل سے تعلقات کا قیام تجارتی و معاشی فوائد سمیٹنے کی غرض سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یو اے ای اسرائیل معاہدہ محض سفارتی تعلقات تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ کاری، سیاحت، ٹیکنالوجی، سیکیورٹی اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کے لیئے اگلے ہفتے مزید معاہدوں کا اعلان متوقع ہے۔ عرب دنیا کے لیئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ مسئلہ فلسطین محض فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کے انسانی حقوق کے تحفظ کا معاملہ نہیں (( اگرچہ کہ یہ بذات خود ایک سنگین مسئلہ ہے)) بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فلسطین مسلمانوں کے قبلہ اول کی سرزمین ہے اور قبلہ اول کا تحفظ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ گویا کہ اسرائیل کو ایک منٹ کے لیئے بھی تسلیم کرنا قبلہ اول سے سنگین غداری ہے۔ اس تناظر میں عرب حکمرانوں کو سوچنا چاہیئے کہ وہ اپنے لیئے تاریخ میں کون سا کردار منتخب کر رہے ہیں؟
یو اے ای اسرائیل معاہدہ کے خلاف پوری مسلم امہ کی جانب سے بجا طور پر شدید ردعمل آیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور ترکی نے یو اے ای سے اپنا سفیر واپس بلا نے کا اعلان کردیا ہے۔ ملائیشیا نے بھی نہایت سخت رد عمل دیا مگر پاکستان کا ردعمل ضاصا حیرت انگیز ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں دو ٹوک انداز میں اسرائیل کو ناجائز ریاست قررار دیتے ہوئے پاکستان کے تاریخی موقف کا اعادہ کیا مگر دفتر خارجہ کا پالیسی بیان خاصا محتاط اور ڈپلومیٹک تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان عرب دنیا سے اپنے دوستانہ تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں چاہتا ۔ پاکستان کی اس پالیسی کو مسلم امہ کا اتحاد بچانے کی ایک کوشش قرار دی جا سکتی ہے مگر دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اندرونی مسائل سے نبرد آزما ایک ایسا ملک ہے جو فی الوقت کسی بین الاقوامی تنازعے میں الجھنے کا متحمل نہیں۔ ان حالات میں دیکھا جائے تو پوری مسلم دنیا میں ترکی کے علاوہ کوئی ملک ایسا نہیں جو مسلم امہ کی قیادت کا کردار ادا کر سکے۔
مسلم عوام کی نگاہیں اب بلاشبہ ترکی کی طرف ہیں۔ ترکی نے کئی بار غزہ اور فلسطینی مسلمانوں کے لیئے عالمی فورمز پر آواز اٹھائی ہے۔ ماضی میں فریڈم فلوٹیلا کے ذریعے غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے میں کردار ادا کیا۔ حال ہی میں آیا صوفیہ مسجد کی بحالی کے موقع پر وزیر اعظم اردوگان نے اعلان کیا کہ یہ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ تاہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ترکی نے خود اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔ ترکی اور اسرائیل کے مابین دو ارب ڈالر سالانہ کی تجارت بھی جاری ہے۔ اگرچہ ترکی کے حامی حلقوں کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کمال اتا ترک کے سیکولر دور میں استوار ہوئے تاہم موجودہ عالمی صورتحال میں اب وقت آگیا ہے کہ اردوگان حکومت اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی کا ازِ سر نو جائزہ لے تاکہ مسلم دنیا کے عوام کا اعتماد جیت سکے۔
دوسری طرف او آئی سی کا فوری اجلاس بلانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے جس میں اسرائیل کے حوالے سے تمام مسلم ممالک کا مشترکہ موقف سامنےآنا نہایت ضروری ہے۔ تاکہ یو اے ای کے بعد دیگر عرب ممالک کا اسرائیل کو ممکنہ طور پر تسلیم کئیے جانے کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ عرب امارات پر سفارتی دباو بڑھانا بھی ضروری ہے۔