میں امید و یاس کے گہرے سمندر میں کئی عشروں سے، اسلام کا درد رکھنے والے، سلطان صلاح الدین ایوبی۔ طارق بن زیاد، فاتح اندلس، قسطنطنیہ عثمانی خلیفہ عبدالحمید(دوم)، محمدبن قاسم کو پکار رہی ہوں کہ وہ مجھے یہودی صلیبیوں سے آزاد کروائیں گے۔۔۔؟دھرتی فلسطین تو اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء ؑ کی سرزمین ہے۔ میرے گردونواح میں کئی برگزیدہ انبیا ؑکی مقدس قبریں ہیں۔ میرے اوپر آنحضورؐ واقعۂ معراج پیش آیا۔ میری مقدس سرزمین پر سرورِکونینؐ کو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ؑ کو اامامت کے فرائض سونپے ، یہ کتنی پاکیزہ روح ِ زمین کا مقدس ٹکڑا ہے کہ اس پر قبلہ اول کی تعمیر ہوئی اللہ نے بیت المقدس کو کن کن اعزازات سے نوازا ہے ۔
مگر آج بیت المقدس، مسجد اقصیٰ خون کے آنسو بہارہی ہے۔ آج یہودی صلیبی بیت المقدس کو منہدم کرکے ہیکل سلیمان کی تعمیر کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں اور اس تعمیر کی شروعات بھی کردی گئی ہیں۔افسوس صدافسوس! آج جن امت ِ مسلمہ کے حکمرانو اور سلطانو نے مجھے ان ناپاک اسرائیلی یہودیوں سے اس مقدس سرزمین کو آزاد کروانا تھا۔ وہ اُن کے ساتھ ہاتھ ملارہے ہیں۔ معاہدے کررہے ہیں۔ تسلیم کررہے ہیں۔ ہاں ہاں مسجداقصیٰ کو معلوم کہ جن شہزادوں کی بیویاں یہود کی نسل سے ہوں تو اُس کے اثرات اُنکی نسل میں منتقل ہونے ہیں۔
یادرکھیئے! امت ِ مسلمہ کے حکمرانو! یہ مسئلہ مسئلہ فلسطین یا فلسطینی عوام کا نہیں۔ یہ مسئلہ قبلہ اول، بیت المقدس، مسجد اقصیٰ کا ہے۔ یہ مسئلہ یہ نرمی حریت پسندی نسل اور زمین کا نہیں ہے۔ یہ ایمان کا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا میں بسنے والے تمام لااِلہ اِلااللہ پڑھنے والوں کا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا وآخرت کا مسئلہ ہے۔ یہ حق سے وفاداری کا مسئلہ ہے جس طرح کعبۃ اللہ اور مسجد نبویؐ کی طرف میلی آنکھ دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ وہی حیثیت دنیا میں بسنے والے مسلمان مسجد قصیٰ القدوس کی حفاظت کا فرض بنتا ہے۔
اے مسلمانوں! اپنے اسلاف کی طرف نظر دوڑائو خلافِ عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید(دوم) یہودئیوں نے سلطان کو لالچ دیکر القدوس کی زمین خریدنے کا سوال کیا۔۔۔۔ تو عثمانی سلطان عبدالحمید(دوم) نے غضب ناک اور ایمانی حالت میں جواب دیا کہ عثمانی کبھی بھی دشمنوں کے مال، دولت سے بنائے گئے محلات میں پناہ نہیں لیں گے۔ تم کتے دوبارہ یہ جسارت نہ کرنا۔ میں اس سرزمین کی مٹھی بھر خاک بھی تمہیں نہیں دے سکتا۔سلطان اس موقع پر عظیم الفاظ کہے جو سونے کے بانی سے لکھنے کے قابل ہیں۔
عثمانی سلطان عبدالحمید(دوم) گرجا اور یہودیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تاریخی الفاظ دھرائے کہ یہ القدس کی سرزمین صرف میری نہیں یہ تمام دنیا میں بسنے والے مسلمانو کی ہے۔ امت نے اس کیلئے اپنا خون سینچا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کیلئے جہاد کیا ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں اپنے سینے میں خنجر گھونپ لوں گا مگر اس مقدس زمین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا۔ مگر افسوس آج اس امت میں ایک بھی سلطان محمدفاتح، سلطان عبدالحمید(دوم) نہیں جو ان صلیبیوں کو للکارے۔۔۔۔۔۔۔؟
حرص وہوس دولت کی ریل پیل۔ برج نما عمارتوں کی تعمیر ، پروٹوکول نے امت مسلمہ کے سلطانوں کو بے حس کردیا ہے۔ آج امت کے سُرخیل حب الدنیا میں مبتلاہوگئے ہیں۔ جب انسان دنیا کی محبت میں گرفتار ہوتا تو یہ بزدل اور لاغر ہوجاتا ہے۔ جب مسلمان دنیا کی چکاچود اور چک میں مبتلا ہوتا ہے تو اُس کے اندر سے ایمان کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ غیرت وحمیت کے جذبات ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ آج آپ امارات میں دیکھیں دنیا کے تمام عیاشیوں کے سامان ارزاں فروخت ہورہے ہیں۔
امارات عرب میں آپ عمیق نظروں سے مشاہدہ کریں۔ وہاں کے کلچر میں یہودونصاریٰ کی جھلک نظر آرہی ہے۔ عیاشی، عریانیت اور عورت نسواں کی آزادی کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ ڈانس کلب، سوئمنگ پول، شراب کے سنٹرز کھلے عام چل رہے ہیں۔ دبئی جو کرکٹ کا دنیا بھر کے کھلاڑیوں کا ہر سال میلا منعقد ہوتا ہے اور تمام دنیا کے کھلاڑی اور اُنکی بیویاں، تماشائی نیم برہنہ لباس میں گل گھباڑے کرتے نظر آتے ہیں اور امارات اسلامیہ کے شہزادے گرائونڈ میں خوش گپیوں میں کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور آج امارات عرب نے اسرائیلیوں کے ساتھ معاہدہ کا ہاتھ بڑھا کر اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔
اپنے ہی گراتے ہیں نشمین پر بجلیاں
کے مصداق اللہ تبارک تعالیٰ کتاب ھدیٰ میں واضح طور پر فرمادیا کہ’’ دنیا میں جو جس کے ساتھ رہے گا قیامت کے دن انہیں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا‘‘ آقائے نامدار آنحضور ؐ کا ارشاد گرامی ہے جب مسلمان حب الدنیا میں مبتلا ہوگئے اور کراہۃ الموت یعنی موت سے نفرت کرے گا تو سمجھیں قیامت قریب ہے۔ آج امت مسلمہ کے حکمرانو نے یہودیوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر فلسطین کے لاکھوں شہداء کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اور امارتی وزیرخارجہ عیاش کہتا ہے کہ یہ ہمارا اندونی معاملہ ہے۔ دنیا کو اس میں داخل اندازی کا کوئی حق نہیں۔ آج اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین بسیتوں میں اسرائیلی یہودی امارات اور اسرائیلی کٹھ جوڑ پر جشن منا رہے ہیں اور گریٹر اسرائیل کے قیام کی نوید سنائی جارہی ہے۔