آج میرے ایک بہت ہی عزیز سینئر دوست نے ایک ویڈیو بھیجی اور مجھے درخواست کی کہ اس پر کچھ لکھا جائے ان کی یہ درخواست پر ویڈیو دیکھتے ہی میں اپنا بلاگ لکھنے بیٹھ گیا اس ویڈیو میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایک انتہائی سینئر شخص کو اردو پوائنٹ نامی ایک میڈیا چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دیکھایا گیا۔موصوف بتا رہے تھے کہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ میں بہت ساری کتابوں میں غلط معلوماتی خامیاں اور غلطیاں ہیں ان کا موقف یہ تھا کہ ان کو سنے بغیر تبادلہ کیا گیا اور ساتھ ساتھ خطہ پاکستان کے لوگوں سے ہمدردی بھی لینے کی کوشش بھی کر رہے تھے انکا موقف اپنی جگہ مگر معاشرے کے اندر بے شمار خامیوں کا تذکرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
دنیا کا غیر مسلم معاشرہ جن کو ہم زیادہ تر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اگر ہم ان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان معاشروں میں زیادہ تر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دوران سفر چاہے چھوٹا ہو یا بڑا وہ اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب ضرور رکھتے ہیں اور موقع ملتے ہی وہ کتاب پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اس طرح وہ فضول گپ شپ اور قہقہے بھرے سفر سے اجتناب کرتے ہوئے اپنا سفر بھی معلومات کے لئے مختص کر دیتے ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ فضول گپ شپ، بخیلی ،دشمنی اور عناد کے کلچر کو فروغ دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ بھی وہ اپنے فارغ اوقات میں دوسرے لوگوں کی زندگیوں دوستوں، محلے داروں اور رشتہ داروں کی نجی زندگیوں کو ہی زیربحث لا کر لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔
مذکورہ بالا ویڈیو میں جو مسائل بیان کئے گئے ہیں دراصل وہ ہمارے معاشرے میں کتاب کے مطالعہ کی کمی اور معاشرے میں بنیادی تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہیں ہمارا معاشرہ چونکہ 72 سالوں سے ایک مافیا کی شکل میں ایک نظام بنائے بیٹھا ہے اور اس مافیا کے اندر کے تمام کے تمام لوگ اپنا چائے پانی وصول کرتے ہوئے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہوتے ہیں اس لیے اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھیڑا جائے تو اس مافیا کے جال میں پھنسے تمام لوگ متحرک ہوکر اس ایک شخص کے مخالف بھی ہو جاتے ہیں۔
یہ مسائل تو اپنی جگہ موجود ہیں اور ان کو ٹھیک کرنا یا ختم کرنا چند سالوں میں تو ممکن نہیں مگر معاشرے میں موجود خامیوں کو ختم کرنا ہمارے بس میں ہے۔ کیا فضول اور لغو گفتگو کو چھوڑ کر ہم کتابوں کے مطالعہ کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتے ؟؟؟
تاکہ کتابوں میں معلوماتی خامیوں اورتکنیکی غلطیوں کو بروقت اصلاح کر کے ہم ایک مضبوط معاشرے کو پروان چڑھا سکیں اور معاشرے کے اندر سے ایک ایسا دباؤ پروان ہو کہ جو کتابوں کے چھاپنے والے اداروں کو بروقت تصحیح کرنے پر مجبور کردیں بجائے اسکے کہ دفتر میں بیٹھا ایک شخص ان کی تصحیح کے خلاف آواز اٹھائے اور اس کا احتجاج بھی ہمارے صحت مند معاشرے کے مزاج کی عکاسی بھی نہ کر رہا ہو۔ کتابوں کا مطالعہ صحت مند معاشرے کو جنم دیتا ہے اور اس سے صحت مند سوچ بنتی ہے اور اچھے رویے پروان چڑھتے ہیں ۔ہر چیز میں دوسروں کو کوسنے سےاجتناب کرتے ہوئے ہم خود ایک اچھے اور تعمیری سوچ رکھنے والے معاشرے کی بنیاد رکھیں اور لغو گفتگو جو ہر گلی چوراہے پر ہوتی ہے اس کو ختم کر کے کتابوں کے مطالعے کا شوق اپنائیں اور نہ صرف ایک مذہبی گناہ (غیبت) سے بچیں بلکہ مضبوط قوم بنانے میں عملی طور پر حصہ ڈالیں تاکہ معاشرے میں پنپنے والے مافیاز خود بخود ہی دم توڑ جائیں اور کسی ایک فرد واحد کو احتجاج کا موقع ہی نہ ملے۔
سوچ کو بنانا انسان کے اختیار میں ہے اور کتابوں کے مطالعے سے ہی آپ اپنی سوچ کو ایک مضبوط قوم بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں معاشرتی جانور اور غیر معاشرتی جانور میں ایک اہم فرق سوچ کا ہے اور اس کا استعمال مطالعے کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے نہ کہ تخریبی اور شیطانی سوچ کے ذریعے۔