کیا تحریک انصاف کی اعلی قیادت ایسا سوچ رہی ہے کہ کراچی کو پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، تاکہ کراچی کی عوام دیکھ لیں کہ انکے مسائل کا حل انکے منتخب کردہ نمائندوں کے پاس نہیں۔موجودہ حالات انکی بے بس کی کھلی داستان سنا رہے ہیں اب عوام کو اگلی بار کچھ الگ سوچنا ہوگا،اور ویسے بھی عنقریب بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کراچی کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم پاکستان کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ کراچی کو اسکا حق دلانے میں ناکام رہے ہیں، صرف یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ صوبائی حکومت نے انکے ہاتھ پیر باندھ رکھے ہیں یا انہیں مسائل کے حل کیلئے وسائل تک رسائی نہیں۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایم کیوایم پاکستان تقسیم در تقسیم ہونے کے بعد کراچی کی عوام کے دلوں سے نکل رہی ہے؟ابھی اس بات کا حتمی تعین کرنا مشکل ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان شخصیت کے حصار سے نکل کر نظرئیے کی پیروی کرنے والوں کی جماعت بن چکی ہے، مرکز کی تبدیلی نے سب کچھ بدل دیاہے، کسی بھی قسم کے مفادات پر کوئی رکن سمجھوتا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کو سیاست میں جتنا رگڑا لگا ہے شائد ہی کسی سیاسی جماعت کو یہ اعزاز حاصل ہو۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ جناب فاروق ستار صاحب نے ایم کیوایم پاکستان کو چھوڑا ہے یا ایم کیوایم پاکستان نے انکی قیادت سے منہ موڑا ہے، تاحال وہ ایم کیوایم پاکستان سے ناراض ہیں لیکن زبان ایم کیو ایم پاکستان کی ہی بول رہے ہیں،دوسری طرف کراچی کا ایک اور سپوت جس نے ایم کیوایم پاکستان کی ترجمانی کرتے ہوئے بطور مئیر کراچی کراچی کا بہت حد تک نقشہ درست کیا اور دنیا انکی کارگردگی انکی اہلیت کی معترف ہوئی، سید مصطفی کمال صاحب کہ جنہوں نے نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر ایم کیوایم پاکستان کو خیر باد کہا اور پاک سر زمین نامی ایک اور سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی جس میں ایم کیوایم سے کچھ اور لوگ نکل کر انکے ساتھ ہولئے۔ یہاں ایم کیو ایم کے سب سے پہلے اختلا ف کرنے والے آفاق احمد صاحب جنہوں نے ایم کیوایم (حقیقی)بنائی کا نام لینا سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ آج ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست واپس گھوم پھر کر وہیں آگئی ہے جہاں سے پہلا اختلاف ہوا تھا۔ جماعت اسلامی بھی کراچی میں اپنا بڑا اثر و رسوخ رکھتی ہے لیکن سیاسی طور پر اپنا استحکام واضح نہیں کرسکی ہے جبکہ ایم کیوایم پاکستان کے بعد اگر کوئی جماعت بلدیاتی انتخابات جیت چکی ہے اور اپنا مئیر بھی لا چکی ہے وہ جماعت اسلامی ہی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے مسلسل بر سر پیکار رہتی ہے۔ اس طرح ایم کیوایم پاکستان جو کراچی کی عوام کی طاقت سمجھی جاتی تھی تقسیم ہوتی چلی گئی، اس تقسیم سے جہاں ایم کیوایم پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا وہیں دیگر سیاسی جماعتوں نے فائدہ اٹھانے کی کوششیں شروع کردیں۔ جیساکہ ۸۱۰۲ کہ انتخابات میں دیکھا گیا کہ کراچی سے پاکستان تحریک انصاف، تحریک لبیک پاکستان اور پیپلز پارٹی نے اضافی نشستیں حاصل کیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی سیاست کا منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہاہے، ممکن ہو کہ ایسا ہونے جا رہا ہو لیکن موجودہ صوبائی حکومت سندھ ایسا نہیں ہونے دینا چاہتی۔ اگر ہم گزشتہ کچھ عرصے سے جاری پیپلز پارٹی کی سیاست پر نظر ڈالیں تو انکا ہر قدم جو وہ اپنی سیاست مضبوط کرنے کیلئے اٹھا تے ہیں انکی سیاسی بساط اور کمزور کر دیتا ہے۔ حالیہ بارشوں میں پیپلز پارٹی کراچی پر پانی پھیرنے چلی تھی،وفاق اور اعلی عدلیہ نے انکے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ ایم کیوایم پاکستان کو وفاق میں حکومت کے ساتھ بیٹھنا بھی پیپلز پارٹی کیلئے ناگوار ہے جس کا بدلہ وہ کراچی کی عوام سے لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت کا مشکور ہونا چاہئے کہ انہوں نے ہر طرح بحران میں انکی بروقت معاونت کی۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کا کراچی کے دورے نا کرنا اس بات کی عکاسی ہے کہ انہیں کراچی جیسے شہر کی ابتر حالت دیکھ کر یقینا دکھ ہوتا ہوگا۔وزیر اعظم عمران خان ایک دوراندیش اور بصیر ت رکھنے والی شخصیت ہیں انہیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ مقامی انتظامیہ ہی مقامی مسائل کے حل کیلئے سب سے بہترین حل ہوسکتی ہے، کیونکہ جس نے رہنا نہیں ہے اس نے لگا نا بھی نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی انگریزوں کے طرز کی حکومت پر یقین رکھتی ہے کیونکہ اس جماعت سے وابستہ لوگوں کی اکثریت زمیندار اور وڈیرے ہیں، یہ عوام سے اپنے مفاد کی خاطرملتے ہیں اور انکے مفادات کیا ہیں یہ عرصہ دراز سے اخبارات اور اب سماجی ابلاغ پر دیکھ ہی رہے ہیں، کون کیا کرتا ہے اور کون کیا اس بحث میں ہم نہیں جاسکتے۔ آج تک اندرون سندھ کا تاثر کسی پتھر کے زمانے کے دور سے مشابہ ہے۔کراچی کی مزید تقسیم اس بات کا اعلان ہے کہ بلدیاتی انتخابات قریب آچکے ہیں، پیپلز پارٹی کراچی میں کبھی اپنا مئیر نہیں لاسکی اور جیسا کہ سیاسی انجینیرنگ نامی اصطلاح آجکل بہت استعمال کی جارہی ہے تو یہاں سندھ میں پیپلز پارٹی نے انتظامی انجینیرنگ کر کے کراچی میں اپنا مئیر لانے کی کوششوں کو حتمی شکل دے دی ہے۔ گزشتہ روز کراچی کے انتظامی ڈھانچے میں ایک بار پھر تبدیلی کی گئی اور ساتویں ضلع کا اعلان کردیا گیا۔ کراچی کو ضلعوں میں بڑی خوشی خوشی اور بغیر کسی سیاسی رائے شماری کے اضافہ کیا جاتا رہا ہے اور جب کبھی پاکستان میں صوبے بنانے کی بات ہوتی ہے تو یہی سیاسی جماعت کھلے عام مارنے اور مرنے کیلئے تیار ہوجاتی ہے۔ اب شہر کراچی میں کچھ وقت کیلئے حکومت سندھ کے اس اقدام پر احتجاج ہوگا کوئی قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے گا اور کوئی اسمبلی کے باہر عارضی دھرنا دے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ من مانیوں کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے اور کب قانون کی بالادستی قائم ہوتی ہے۔ ایم کیوایم پاکستان کی بقاء کیلئے ایک بار پھر کڑا امتحان شروع ہوچکا ہے کیونکہ ضلع کے اضافے کو تو ایم کیوایم پاکستان روک نہیں سکتی، لیکن کیا بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی عوام اپنے ووٹ سے اس انتظامی انجینیرنگ کو شکست دے سکینگے۔ اس کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کو اپنی جماعت سے نکلنے والوں کیساتھ اتحاد بنانا پڑے گا،وگر نہ تقسیم سے پیپلز پارٹی بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
سب اپنے اپنے مفادات کی حفاظت پر کمر بستہ ہونے کیلئے تیار ہوجائینگے، کراچی پھر اسی طرح کچرے کا ڈھیر رہے گا، روشنیوں کا شہر اندھیرے میں ڈوبا رہے گا اور بارش ہوگئی تو پانی میں بھی ڈوب جائے گا۔ ضلع بنا کر مئیر بنا بھی لیا تو کراچی تو مزید کچراچی میں تبدیل ہوکر رہ جائے، پھر آنے والے وقتوں میں کراچی جو ایک شہر ہوا کرتا تھا پڑھایا جائے گا۔ اس مضمون کے اختتام پر اپنے تمام سیاست دانوں سے دلی درخواست کرنا چاہونگا کہ خدارا سیاسی مفادات پاکستان کے مفاد میں قربان کردیں، ہر وہ عمل جس سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچتا ہے روک دیں، یہ اگست کا مہینہ ہے جو پاکستان کیلئے کسی دوسرے مبارک مہینوں سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔ابھی صرف متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اسکے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کئے ہیں اور اسی دن سے اسرائیلی فوجی غزہ کو مٹانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں آنکھیں کھولیں اپنا مقصد حیات جانیں، موت ہر لمحہ ہمارے ساتھ گھوم رہی ہے کسی بھی لمحے ساتھ لے جائے گی۔