مس کیا میں پانی پی لوں؟؟؟؟
پہلی جماعت کے طالب علم نے استانی صاحبہ سے پوچھا ۔تو استانی کہنے لگیں ۔کہ جی پی لیں۔اب بچہ نے کہا کہ مس کون سے بٹن کو دبانا ہے کہ پانی آئے؟؟؟ اب لمحہ بھر کے لیے تواستانی صاحبہ کو بھی نہ سمجھ آسکا کہ یہ بچہ کیا کہ رہا ہے!!!!!
پھر وہ گویا ہوئیں اور کہنے لگیں۔کہ آپ جائیں اور پانی پی لیں۔اب بچے کا وہی سوال تھا۔اور کہنے لگا کہ لیپ ٹاپ کے کونسے بٹن کو دبانا ہے پانی پینے کے لیے؟؟؟؟؟
استانی نے یہ جملہ کہنے سے اپنے آپ کو روکا یہ کہنے سے “کہ بیٹا یہ ٹیکنالوجی کی اس حد تک ہم ابھی نہیں پہنچے ہیں “۔اور پیار سے سمجھاتے ہوئے کہنے لگیں کہ آپ اٹھ کر جائیں اور پانی پی لیں کہ لیپ ٹاپ میں ایسا کوئی بٹن نہیں کہ جہاں سے پانی آسکے۔
دراصل بچہ یہ سمجھ رہا تھا کہ جب کلاس آن لائن ہورہی ہے تو سارے ہی کام آن لائن کرنے ہوں گے۔
تھوڑی دیر بعد استانی نے کہا کہ بیٹا ہاتھ کھڑا کریں ۔سارے بچہ ہاتھ کھڑا کرنے لگے کہ انھوں نے کہا کہ بیٹا یہ جو اسکرین پر ہاتھ بنا آرہا ہے ۔اسے کھڑا کرنا ہے۔بچے اپنا ہاتھ اسکرین کے قریب لا کر کھڑا کرنے لگے ۔اب استانی نے پھر بڑے پیار سے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ جو پیلے رنگ کا ہاتھ اسکرین پر نظر آرہا ہے اسے کلک کریں۔
اب کچھ بچوں کو تو سمجھ میں آیا اور کچھ کو نہیں۔
اور اس کے بعد اب باری تھی کہ استانی کچھ پڑھا رہی تھیں اور سلائیڈ دکھا رہی تھیں کہ استانی کی تصویر نظر آنا بند ہوگئ ۔اب تو بچوں نے بھیں بھیں کرنا شروع کر دیا اور ساتھ کہ دیا کہ ہمیں نہیں پڑھنا۔
ساتھ بیٹھی بچوں کی امی کو تو غصہ آیا کہ تم لوگوں کو ایک تو میں ساتھ بیٹھ کر پڑھا رہی ہوں اور تمھارے نخرے ختم نہیں ہورہے ۔سامنے اسکرین پر دیکھو۔
لیکن وہ بچہ ہی کیا جو ماں کی ایک سُن لے۔اسکرین کو دیکھنے سے صاف منع کر دیا کہ نہیں دیکھنا اسکرین پر جب تک استانی نظر نہ آئیں۔
ماں نے بھی اپنے آپ کو کنٹرول کیا اور ابھی وہ کچھ سمجھاتیں کہ استانی کی شکل اسکرین پر نظر آگئ ۔اب کچھ لمحات ہی گزرے ہوں گے کہ انٹر نیٹ کے کنکشن میں مسئلہ ہوا اور اب اسکرین پر نہ تو تصویر آرہی تھی اور نہ ہی کوئی سلائیڈ۔
اور بچہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ یہ تو اب کھیلنے کا وقت ہے۔
ماں نے پھر کوششیں کرنا شروع کیں اور بالآخر نیٹ بحال ہوا تو ماں باورچی خانہ سے آتی تیز جلنے کی بو پر وہاں سے بھاگی ۔مگر اس وقت تک وہ بڑی محنت ومشقّت سے پکائے گئےسالن سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔
دو آنسو آنکھوں سے نکلے اور اس نے دوبارہ سے پیاز چھیلی و کاٹی۔اب یہ پیاز چھیلنے و کاٹنے کے بعد وہ بچہ کو دیکھنے گئیں تو وہ بچہ یو ٹیوب کھولے بیٹھا تھا۔
اور یہ دیکھ کر ماں کی یہ حالت کہ شاید وہ کچھ اٹھا کر ہی بچہ کو مار دے لیکن پھر بھی اس نے کافی حد تک اپنے اوپر قابو پایا اور بس ایک ہاتھ لگایا کہ یہ آن لائن کلاس چل رہی ہے؟؟؟؟؟؟لیکن وہ بچہ اب تو بلکل بھی پڑھنے کے لیےتیار نہ ہوا کہ آپ نے مجھے مارا ہے میں تو نہیں پڑھوں گا۔ ماں کا دل اس وقت چھوٹے بچوں آن لائن پڑھانے والوں کو اکیس توپوں کی سلامی دینے کو چاہا۔اور ان اساتذہ کرام کو بھی سلام کرنے کا دل چاہا جو کہ اپنا گلا بھی استعمال کر رہی ہیں کہ مائیک میں ذرا خرابی ہو تو مزید زور سے بولنا پڑے۔اور پھر وہی پیار و محبت سے پڑھا بھی رہی ہیں۔
اور اس نے ایک نظر اپنے بچہ کو دیکھا اور ایک نظر اکسرین پر ڈالی اور اسے محسوس ہوا کہ ہاں یہ “کھلے اسکول بھی بہت بڑی نعمت تھے”۔