اسپین میں مسلمانوں کی تاریخ سات سو گیارہ سے شروع ہوئی اور چودہ سو بانوے تک رہی اسی دوران مسلمان حکمرانوں نے کئی تاریخی عمارات کو تعمیر کیا جو ان کے فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت تھا، مسلمانوں نے اپنے دور حکمرانی میں جو عمارات اور پل تعمیر کیے وہ ان کی عہد کی یاد کو تازہ کرتے ہیں۔
ان میں میں دو قابل ذکرعمارات جن میں ایک غرناطہ میں الحمرا ہال اور دوسری اندلس میں مسجد قرطبہ شامل ہے ۔مسلمانوں کا دور حکمرانی تقریبا آٹھ سو سال پر محیط رہا اور اس میں سب سے بڑی اہم بات مسلمانوں کا عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ اکٹھے رہنا تھا عیسائی اور یہودی مسلمانوں کے طرز حکمرانی سے قدرے خوش تھے کیونکہ ان کو پہلےحکمرانوں سے بہتر آزادی تھی مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا مسلمان حکمرانوں میں تبدیلی آنا شروع ہو ئی مسلمانوں حکمرانوں کے اندر انصاف ختم ہوگیا اور اس طرح معاشرے کے اندر ایک بغاوت کی فضا پیدا ہونے لگی۔
دوسری طرف مختلف علاقوں میں مسلمان قبیلوں کے اندر بھی اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے اور ان کی دشمنی عیاں ہونے لگی شمالی اسپین کے عیسائی ان چیزوں کا بہتر طریقے سے فائدہ اٹھانے لگے اور آہستہ آہستہ وہ مسلمانوں کو شکست دینے لگے۔
مسلمانوں کی شکست کی بڑی وجہ یہ بنی کہ وہاں کے مقامی عیسائی اور یہودی مسلمانوں سے تنگ آنا شروع ہو گئے اس کی وجہ معاشرے میں انصاف کا ناپید ہونا اور ظلم اور جبرکا پروان چڑھنا تھا۔ اس طرح یہی عیسائی اور یہودی، مسلمان حکمرانوں کے باغیوں سے مل گئے اور آہستہ آہستہ شمالی ا سپین کے عیسائی قبیلوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہونے لگے اور اس طرح کرتے کرتے مسلمان اپنے علاقوں کو کھونا شروع ہوگئےاور یوں پندرہویں صدی کے اختتام تک اسپین پر مکمل عیسائیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔
مسلمانوں کے زوال کی اہم وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمان ناانصافی کرنا شروع ہوگئے تھے اور غیر مسلموں کے ساتھ تشدد اور غلامی کی روش کو قائم کیے ہوئے تھے جس کی وجہ سے عیسائی اور یہودی مسلمانوں سے متنفر ہو چکے تھے اور سات ہی مسلمانوں کے اندر بھی اختلافات کی جڑیں پروان چڑھ چکی تھیں جس کی وجہ سے مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوگئے
مسلمانوں کے زوال کی جو وجہ ہندوستان میں بھی سامنے آئی وہ بھی یہی تھی کہ جب بھی مسلمانوں نے دین اسلام سے منہ موڑا انہوں نے شکست ہی کھائی اور ایسی شکست کھائی کہ ان کی حالت غلاموں جیسی ہوگئی اور وہی حکمران غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ۔
مسجد قرطبہ بہت ہی بڑی اور خوبصورت عمارت ہے اور اس عمارت کو اب عیسائیوں نے کلیسا میں تبدیل کر دیا ہے اور یہاں پر مسلمانوں کا نام و نشان تک نہیں مسلمانوں کو اس مسجد میں اب تو نماز تک پڑھنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ہے مسجد قرطبہ دیکھنے میں تو ایک عمارت ہے مگر یہ مسلمانوں کی ناکامی اور ان کی اسلام سے روگردانی کا ایک بہت بڑا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے۔
اللہ نے اپنی پاک کتاب قرآن پاک میں بھی مسلمانوں کو واضح کیا ہے کہ جب تک تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو تم دنیا کی ایک مضبوط قوم بنے رہو گے، آج مسجد قرطبہ میں عیسائی عبادت کرتے ہیں مگر یہ عمارت جب تک دنیا میں قائم رہے گی یہ مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ کی صورت میں موجود رہے گی ۔
ہم اللہ سے ہر وقت گلہ شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ ہم دنیا میں اتنے کمزور اور ناتواں کیوں ہیں مگر کیا ہم نے اپنی ناکامیوں اور اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالی ہے۔اگر آج بھی ہم نے دین اسلام کی راستے پر چل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہ تھاما تو یہ کوئی شک نہیں کہ ہمارا حال بھی اسپین کے مسلمانوں کی طرح ہی ہوگا۔اکیسویں صدی میں بھی ہم اسی حالت میں کھڑےہیں اور ریزہ ریزہ ہیں اور اگر ہمارا یہی حال رہا تو ہم اسی طرح آگے بھی ریزہ ریزہ ہی رہیں گے اور غیرمسلموں کے رحم و کرم پر زندہ رہیں گے۔
مسجد قرطبہ کی عمارت جب تک قائم رہے گی یہ مسلمانوں کی ناکامی کا ایک منہ بولتا ثبوت رہے گی اور مسلمانوں کو چاہیے کہ اس عمارت سے سبق سیکھیں بہترین حکمرانی کا راز معاشرے کے اندر انصاف کی فوری فراہمی اور حکمرانوں کی رحمدلی کا رویہ ہے جب حکمران ایسے رہے انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی اور جب حکمران نانصاف اور بے رحم ہو گئے تو ان کا شیرازہ بکھر گیا اور انکو شکست فاش ہوئی ۔
بطور مسلمان اگر ہم نے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے تو ہمیں مسجد قرطبہ کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا اور اگر ہم اس عہد پارینہ کو جا کر دیکھیں تو ہمیں مسلمانوں کے عہد رفتہ کی یاد بھی تازہ ہوگی اور ان کے تمام فن تعمیر کے شاہکار کو دیکھنا ہو گا کہ کتنے عظیم لوگ تھے جنہوں نے یہ مسجد تعمیر کی اور اپنی محنت ،لگن اور ایمان کی طاقت سے اس مسجد کو تعمیر کیا جو کہ امت مسلمہ کی فن شاہکاری، اہلیت، ذہانت اور محنت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
اے گلِستانِ اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
اے ارضِ پاک! تیری حُرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خُوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
آپ کی معلومات سطحی اور نا کافی ہیں۔ کم ازکم غیر مسلمین کے ساتھ مسلمانوں کے ناروا سلوک اور پھر ان غیر مسلموں کا بغاوت پر اتر آنا ثابت نہیں۔ العکس مسلمانوں میں آپسی رسہ کشی و اختلافات کے باوجود رعایا جس میں مسلم عیسائ یہودی سب شامل تھے خوش تھے، آسودہ حالی تھی اور اندلس سارے یورپ کا سب سے امیر، متمول، مہذب اور علوم و فنون کا مرکز ملک تصور کیا جاتا تھا۔ آپسی رسہ کشی میں عربی عجمی، اموی عباسی اور بازنطینی قبائل کے مابین جھگڑے تھے جو دراصل اسلامی سلطنت کے زوال کا باعث بنے۔ انصاف نہ ہونے کے اکا دکا واقعات رہے ہونگے لیکن مسلم سلطنت کے زوال کی بڑی وجہ نہیں تھی۔