آج لکھنے کے ارادے سے کاغذ قلم ہاتھوں میں لینے کے بعد سوچ میں پڑ گیاکہ کس موضوع کا انتخاب کیا جائے تو مُجھے میرےاستاد محترم خلیل صاحب کا قول یاد آ یا کہ لکھنے کیلئے مطالعہ ناگزیر ہے تو اس قول پر صادق نہ آنے پر قلم کی نوک کو روکنا پڑا۔
اچانک کسی دانشور کا قول یاد آ گیا کہ لِکھنے کیلئے اُس موضوع کا انتخاب کرنا چاہئے جس پر آپکا مطالعہ وسیع ہو۔
سوچنے پر معلوم ہوا طالب علم کی حثیت سے ایسا کوئی بھی موضوع نہیں جس پر مجھےمُکمل دسترس حاصل ہو۔
پھر میں نے زندگی کی طرف رُخ کیا تو یہ شعر ذہن میں گھومنا شروع ہوا
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
ساماں سو برس کا ہے پل بھر کی خبر نہیں
دوسرا زندگی پر لکھنے کیلئے زندگی میں خود کا کامیابیوں سے ہمکنار ہونا بے حد ضروری ہے،اور زندگی کو سمجھنے کیلئے باریک بینی والی نظر بھی چاہئے ہوتی ہے
انسان کی اتنی قسمیں ہیں
سمجھنے کیلئے ایک زندگی کافی نہیں
میں شاید سات جنم بھی جان نہ پاؤں
ہر حادثے کے بعد طے کرتا ہوں
بس یہ آخری بار تھا۔۔۔
پھر کوئی نیا چہرہ پہن کر
تازہ گھاؤ دے جاتا ہے۔
چونکہ زندگی کی باریکیوں کے بارے ابھی مکمل ادراک نہیں رکھتا روز سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہوں تو یہ موضوع بھی ادھورا چھوڑ دیا ۔
پھر خیال سُوجھا مُحبت پر لکھا جائے لیکن یہاں پر بھی میرا قلم ڈگمگا گیا کہ مُحبت پر لکھنے کیلئے ناکام عاشق ہونا ضروری ٹھہرا وہ بھی نہیں ہوں۔
پھر خیال آیا لکھاری حضرات پر لکھوں لیکن یہاں پر سب سے پہلی شرط آپکا خود لکھاری ہونا لازم ملزوم ٹھہرا وہ بھی نہیں ہوں , دوسرا ضمیر نہیں مانا جس مُعاشرے میں تعویز لکھنے والا کتاب لکھنے والے سے زیادہ کما ئے وہاں رائٹرز کی مداح سرائی میں کیا لکھنا ؟؟
پھر خیال آیا اُن جعلی پیروں فقیروں کے خلاف قلم کو حرکت میں لایا جائے تو خیال آیا جب حُکومت خود تعویذ گنڈوں پر چل رہی ہو تو میں کیونکر ان غریب جعلی پیروں کی روزی پر لات ماروں۔
سوچا دور حاضر کی وبائی مرض کرونا پر لب کشائی کر لوں سامنے ٹی وی کی سکرین پر مساجد میں با جماعت نماز ادا کرنے کیلئے ایس او پیز نمودار ہوئے اور دوسری طرف ٹائیگرز فورس کا کنونشن نظر آیا جو ایک جَم غفیر کی منظر کشی کرتے ہوئے تمام احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑا رہے تھے تو مجھے آج پہلی بار کرونا بارے حکومتی حکمت عملی بھی بھی ڈرامہ لگی۔
اور یوں آج کی تحریر ادھوری رہے گئی.
ایک ادھوری تحریر ہے میری زندگی
سچ تیرے بعد کچھ نہیں میری زندگی
بہت خوب ابوزر صاحب۔۔۔ قلم اور سوچ کا اپس میں بہت گہرا تعلق ہے، جتنی روانی سوچ میں ہوگی اتنی ہی قلم میں آئے گی۔۔۔
اس تحریر کی خوبصورتی اس کے ادھورے پن میں چھپی ہے۔۔۔ مکمل تو صرف ذات باری تعالٰی ہے۔۔۔ باقی سب ادھورا، نا مکمل ہی تو ہے۔۔۔۔
زندگی کا فلسفہ ہو یا عشق کا، سیاست کی بات ہو یا مذہب کی، لکھنے والوں کی بات ہو یا پڑھنے والوں کی، مکمل کچھ نہیں صاحب۔۔۔۔
جب انسان سمجھتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے اس وقت وہ سب سے بڑے خسارے میں ہوتا ہے۔۔ بے وقوفی کی انتہا ہر ہوتا ہے۔۔۔ انسان کبھی سب کچھ نہیں جان سکتا۔۔۔ مکمل ادراک تو موت ہے۔۔۔
دعا گو
رخسانہ سحر