یہ رسم ایک طویل مدت سے چلی آرہی ہے کہ مرور زمانہ میں ایا م کے پھیر سے یادوں کے دیے جلائے جاتے ہیں۔ تاکہ افتاب کی بھولی بسری جھلک کے احساس کو تازہ دم کیا جا سکے۔ 14 اگست کا دن پاکستانیوں کے لئے نہایت اہمیت کا متحمل ہے، اللہ کالاکھ لاکھ شکر کہ اس نے اس روز 1947 کو ہمیں ارض پاکستان سے نوازا۔ ہمارے وطن میں پاکستانی اس روز آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ جھنڈیاں بھی لہراتے ہیں، ہو سکے تو سیکڑوں کی تعداد میں موٹر سائیکل اور گاڑیاں جمع کر کے ایک ریلی نکالتے ہیں، جہاں تک ممکن ہوا کچھ رٹے رٹائے الفاظ میں آزادی کی مبارکیں بھی سمیٹتے ہیں۔
لیکن گلی چوراہے میں آزادی کے بینر لگا دینے سے، اور پر کشش تقاریب کے انعقاد سے حقیقی آزادی کی جھلک نہیں دیکھی جا سکتی۔ہم جانتے ہیں کہ معلوم باتوں کے تکرار میں وقت کا زیاں ہے۔ اس لئے ایک نامعلوم موضوع کی طرف چلتے ہیں ۔اگرچہ آزادی کا مہینہ جاری ہے۔ اس مناسبت سے آزادی کا موضوع سخن ہی مجلس کی تزیین و آرائش کا سبب ہے۔ لیکن جس معاشرے میں آزادیاں دھری کی دھری رہ جائیں۔ اور غلامی کے طوق بزعم آزادی گلے کی زینت بنا لیےگئے ہوں تو اس معاشرے میں اس کے رسم و رواج کے الٹ چلتے ہوئے ہم غلامی کے کچھ پہلوؤں پر نوک قلم کو جنبش دینے کی جستجو رکھتے ہیں۔
جب ہم لفظ “آزادی” استعمال کرتے ہیں ، تو ہمیں آزادی کا مفہوم بھی سمجھنا چاہیے، اور آزادی کا مفہوم غلامی کے مفہوم پر موقوف ہے۔ غلامی کا مفہوم کیا ہے؟ عالم اسلام کے عظیم مفکر سید قطب شہید کے بھائی محمد قطب اپنی کتاب(“شبہات حول الاسلام” جس کا اردو ترجمہ “اسلام اور جدید ذہن کے شبہات” اور انگریزی ترجمہ ” “The Misunderstood Religionکے نام سے مشہور ہے۔ وہ اپنی اس تصنیف میں غلامی کا مفہوم بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ” غلامی کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو غلام بنا کر اس کو اس کے تمام انسانی حقوق سے محروم کر دے۔ یہی غلامی کا حقیقی مفہوم ہے”۔ یا یوں سمجھ لیجئے مخلوق کا مخلوق کے سامنے جھک جانا۔ ایک اور مقام پر اشتراکی اور سرمایہ داری نظام میں لت پت ممالک کے متعلق لکھتے ہیں : ان ممالک کے باشندوں پر غلامی کی لعنت آج بھی مسلط ہے ۔
اشتراکی ممالک کا آقا ان کی حکومت ہے، باقی لوگوں پر غلامانہ حیثیت میں بلا حیل و حجت ان کی اطاعت لازم ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام میں بڑے بڑے سرمایہ دار قوت اور اقتدار پر قبضہ کئےبیٹھتے ہیں اور باقی لوگ ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اب تھوڑا سا تفکر ہمیں اپنی آزادی کی نوعیت کا کسی درجہ میں کچھ نہ کچھ احساس دلا سکتا ہے۔ اگر نہیں تو آگے بڑھیے ان کی اگلی عبارت ملاحظہ فرمائیں کہ : غلامی کے مسئلہ پر غور کرتے وقت ہمیں ان حقائق پر بھی نظر رکھنی چاہیے اسلام کے بعد کے ادوار میں مختلف حکومتوں نے غلامی کی پشت پناہی کی اور اسے مختلف شکلوں میں باقی رکھا ۔ ان کے اس رویہ کی وجہ ہوس، ملک گیری، اور قتدار کی بے انتہاء حرص تھی۔ جس کی وجہ سے ہر قوم یا طبقہ کسی دوسری قوم اور طبقہ کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ غلامی کی ایک اور وجہ غربت اور افلاس بھی تھی۔ جو لوگ غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے، یا زمینوں پر مزارعین کی حیثیت سےکام کرتے تھے، انہیں حقیر خیال کیا جاتا تھا اور ان سے غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا رہا۔
ممکن ہے غلامی کا طوق کسی طبقہ کے گلے میں لٹکتانظر آ چکا ہو، اگر پھر بھی نہیں آیا، آنکھیں چندیا جائیں تو پھر اپنے آزاد ملک پر نظر ڈالیں اور غور کریں کہاں کہاں آزادی کی آغوش میں غلامی کی پرورش ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے تو آزادی کا مطلب تلاش کرنے میں ہی ہم غلامی کا شکار دکھائی دیتے ہیں اس لئے کہ عام طور پر آزادی کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو جیسا چاہے کرے، اس کا ہر کام اس کی خواہش کے مطابق ہو اور کوئی چیز اس کے مطالبات کا رستہ روکنے کی جرأت نہ کرے۔ جسے آپ بے لگام ہونا بھی کہہ سکتے ہیں لیکن رکیے، یہ تو دیکھئے بانی پاکستان قائد اعظمؒ آزادی کے متعلق کیا فرماتے ہیں یہ بھی قابل توجہ ہے کہ : آزادی کا مطلب بے لگام ہو جانا نہیں ہے۔ آزادی سے آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوئی ہے، اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ آپ ایک منظم و منضبط قوم کی طرح کام کریں۔(ڈھاکہ یونیورسٹی۔ 26مارچ 1948) اب ہم منظم قوم کس طرح بن سکتے ہیں ؟ اس کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات کی ضرورت ہے جو افراط و تفریط سے پاک ہو، اور وہ طریقہ اسلام ہے، جو فرد اور معاشرے دونوں کا لحاظ کر تے ہوئے حکم دیتا ہے۔اور چونکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لئے اپنے ساتھ کسی کی شراکت داری کی سخت نفی کرتا ہے۔
آپ نے یہ نعرہ تو سنا ہو “پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ” اگر صرف نعروں کی زینت کے لئے ان پاک کلمات کا استعمال ہی مقصود تھا تو وہ پورا ہوا۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہی نعرہ اپنے عملی نمونے میں آزادی کا صحیح مفہوم رکھتا ہے۔ اس لئے کہ جب ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے فرد ہیں تو پھر ہمیں آزادی بھی اسلام کے مفہوم کے مطابق سمجھنی ہو گی۔ ہمیں یہ نہیں دیکھنا کون کیا کہتا ہے ، بلکہ جب اسلام کے نام پر پاکستان کا حصول ہوا تو پھر یہی دیکھنا ہوگا کہ اسلام کیا کہتا ہے۔ تو اسلام ہمیں مستقل آزادی کی جو راہ دکھاتا ہے وہ خود کو ابنائے دنیا کے بجائے خالق جہاں کے سپر دکرنے کانام ہے کہ کلمہ طیبہ سے یہی مفہوم حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جہاں وقت آنے پر کورے نعروں پر ہی اکتفا کیا جائے تو اسے آپ کیا نام دیں گے؟
ملک ہمارا ہے لیکن نظام کس کا ہے؟ اگر ہم غور کریں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے “اندھیری رات ہے اب تک آزادی اب بھی باقی ہے۔ قائد اعظم ؒ نے فرمایا : اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں، (اسلامیہ کالج پشاور، 13جنوری 1948 )۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ محض زمین کے کسی خطہ پر لکیر کھینچ کر الگ ہو نے کانام آزادی نہیں تھا بلکہ اس خطہ میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایسا نظام وضع کرنا تھا جو عالم اسلام کے لئے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا۔ لیکن زمین کے ایک خطہ پر خودمختاری ہونے کے باجود اسلام مسجد و ملّا تک محدود کر دیا گیا ہو اور غیروں کے نظام کو گلے لگا لیا جائے تو اسے آپ کے خیال میں کیا کہا جائے گا؟
زبان کون سی رائج ہے؟ ہمارے 1973 کے دستور کی دفعہ 251 میں کیا درج ہے اپنی مظلوم قومی زبان کے متعلق؟ چلیں لگے ہاتھوں اس کا بھی کچھ ذکر کر ڈالتے ہیں۔ دفعہ 251 میں ذکر ہیکہ کہ اردو ملک پاکستان کی قومی زبان ہے اور جس دن سے دستور کا آغاز ہوگا اس سے 15 سال کے اندر اندر اردو ملک کی سرکاری زبان بن جائے۔ پھرسرکاری زبان ہونے کا کیا مطلب یہ تو سب خوب جانتے ہیں۔ لیکن آج کتنے برس بیت گئے حساب لگائیں وہ پندرہ سال بھی گزر گئے اور آج ہم اکیسویں صدی کے اکیسویں سال سے گذر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہماری ترجیحات کیا ہیں ذرا غور کیجئے اس جملے پر کہ : ہمارے ملک کا فلاں وزیر اعظم پرچی پکڑکر انگلش میں تقریر کرتا تھا اور دفلاں وزیر اعظم زبانی اورفر فر کرتا ہے۔ جب قومی زبان ہونے کے باوجود ہمارے حکمران اسے سرکاری درجہ دینے پر قادر نہ ہوں تو اس صورت میں آپ کے تصورات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
قائد اعظم ؒ نے فرمایا: آپ نے ایک سلطنت اپنے لئے بنائی ہے‘ ایک وسیع و عریض سلطنت یہ سب آپکی ہے۔ یہ نہ پنجابی کی ہے‘ نہ سندھی کی‘ نہ پٹھان کی‘ یہ آپکی ہے۔(ڈھاکہ … 31 مارچ 1948) اچھا ذرا رکیے! ٹی وی چینل اور ڈمی میوزیم میں تو ہمیں اپنے ملک میں بسنے والی ایک بہادر قوم کے ساتھ سرا سر نا انصافی ہوتی نظر آتی ہے۔ ایسا کس بنیاد پر ہوتا ہے مجھے تو غلامی کے غلاف میں چھپے ذہنیت کی بو آتی ہے لیکن ممکن ہے آپ اسے ایک تفریحی موقع قرار دیں۔
علامہ اقبال اپنے ایک مضمون ” جغرافیائی حدود اور مسلمان” کے اختتام پر لکھتے ہیں” مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا اور اُس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ اور اس آزادی سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں، بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے، اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقتور بن جائے۔ اس لیے مسلمان کسی ایسی حکومت کے قیام میں مددگار نہیں ہو سکتا، جس کی بنیادیں انہیں اصولوں پر ہوں جن پر انگریزی حکومت قائم ہے”۔ تو علامہ اقبال ؒ نے بھی نظریہ آزادی کا مقصد اسلام کے قیام اور مسلمانوں کی قوت کو قرار دیا۔
چنانچہ جب ہمیں ہر طرف سے آزادی کا مقصد اسلام اورمسلمان کی سر بلندی ہی کی صورت میں نظر آتا ہے تو پھر ان مقاصد سے رو گردانی کرنا، اور ان کے متعلق نوک زبان پر ایک لفظ تک نا لانا، اور سنجیدگی سے اس مقصد پر بحث مباحثہ سے مکمل اور پابندی سے گریز کرنا ہمیں کس طرف لے جا رہا ہے؟ اس بارے سنجیدہ تفکر ایک محب وطن پاکستانی پر فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ بصورت دیگر اسلاف کے افکار کی روشنی میں ہماری آزادیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔