آج ہم جب پاکستان کا چوہترواں جشن آزادی منا رہے ہیں۔ اس موقع پر عموماً ہم تحریک پاکستان کے ایک اہم اور نامور رہنما کو فراموش کر دیتے ہیں جن کا نام چوہدری رحمت علی ہے ۔ جنہوں نے لفظ ‘پاکستان ” سے بر صغیر کے مسلمانوں کو روشناس کرایا، چوہدری رحمت علی ایک حساس دل کے بصیرت افروز رہنما تھے وہ مولانا شبلی کی علمیت اور بزرگی کے معترف تھے صرف 18 سال کی عمر میں 1915 میں انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی جس میں انہوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا انہوں نے کہا:
“ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے، ہم اسے اسلامی ریاست میں تبدیل کریں گے، لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس علاقے کے باشندے خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں۔ اسلام اور خود ہمارے لیے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں”
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے اس تصور کو ناپسند کیا گیا اور شدید مخا لفت کی گئی جس کی وجہ سے انہوں نے بزم شبلی سے علیحدگی اختیار کر لی۔اس کے بعد انہوں نے اپنی گریجویشن مکمل کی اور صحافت اور درس و تدریس کے شعبہ میں خدمات انجام دیں اسی دور میں انہوں نے “پاکستان دی فادرلینڈ آف پاک نیشن”، “مسلم ازم” اور “انڈس ازم” وغیرہ کتابچے بھی لکھے۔ 1928 میں وہ انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی تاہم انہوں نے وکالت کے پیشے سے زیادہ مسلم ریاست کی جدو جہد آزادی پر توجہ دی۔
1933 میں دوران تدریس ہی آپ نے لندن میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔28 جنوری، 1933ء کو انہوں نے وہ شہرہ آفاق چار صفحاتی کتابچہ لکھا جس کا نام ” اب یا پھر کبھی نہیں ” (Now or Never(تھا ۔ جس نے پہلی بار بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست کےنام ” پاکستان” سے آشنا کروایا۔ آپ کے مطابق آپ نے یہ نام پنجاب (پ) افغانیہ (ا) کشمیر (ک) سندھ (س) اور بلوچستان (تان) سے اخذ کیا جہاں مسلمان 1200 سال سے آباد ہیں۔۔ غالبا یہ نام انہوں نے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں مسلم ریاست کے مجوزہ خدوخال سے اخذ کیا ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ اس وقت تک پاکستان کا نام استعمال نہیں کر رہی تھی اور اسی دوران انگلستان میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں سوالات کے جواب دیتے ہوۓمسلمرہنماؤںکےوفدنےاسےصرف چند طالبعلموں کی سرگرمیاں قرار دیا۔۔ بالفاظ دیگر اس وقت بر صغیر میں مسلمانوں کی آزادی کی دو متوازی لیکن ایک دوسرے کے معاون تحریکیں چل رہی تھیں جن کا مقصد دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا حصول تھا۔
چوہدری رحمت علی نے انگلستان میں رہتے ہوے برطانوی استعمار اور ہندو فرقہ واریت کے خلاف پاکستان کے حق میں جنگ لڑی وہ تحریر و تقریر کے آدمی تھے۔ اس لیے انہوں 1935 مین ایک ہفت روزہ اخبار ” پاکستان” کے نام سے جاری کیا ، جس میں انہوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست پاکستان کے لیے صحافتی جنگ لڑی اور پورے یورپ میں اس تحریک کو عام کیا اپنی آواز پہنچانے کے لیے جرمنی اور فرانس کا سفر کیا اور جرمنی کے ہٹلر سے انگریزوں کے خلاف مدد کا وعدہ لیا۔ اس کے علاوہ اسی سلسلہ میں امریکا اور جاپان وغیرہ کے سفر بھی اختیار کیا۔”
1940 میں جب قرارداد لاہور منظور ہوئ تو اس جلسے میں بوجوہ چوہدری صاحب شریک نہ ہوسکے ، اس قرار داد میں بھی لفظ پاکستان استعمال نہیں ہوا لیکن ہندو پریس نے طنزا اس کو قرارداد پاکستان کہنا شروع کیا یوں چوہدری صا حب کا خواب حقیقت کا روپ دھار گیا۔
1947 میں انہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا پاکستان بننے کے بعد چوہدری صاحب پاکستان تشریف لاۓ لیکں جلد ہی یہاں کےحالات اور رویے دیکھ کر دل برداشتہ ہو گئے اور 1948 میں واپس انگلستان چلے گئے۔ جہا ں1951 وہ انتہائ کسمپرسی کے عالم میں انتقال کر گئے ۔ دو ہفتے تک ان کی میت کولڈ اسٹوریج میں پڑی رہی کسی ہم وطن نے ان کی خبر نہ لی آخر کار دو مصری طالب علموں نے ان کو کیمبرج کے قبرستان میں امانتا دفن کر دیا آج سات دھایئوں کے گزرنے کے باوجود ان کا جسد خاکی اپنے وطن مین دفن ہونے کا منتظر ہے۔ ہم نے ان کی عظمت کو ایک ڈاک ٹکٹ سے زیادہ عزت نہیں دی۔۔
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں