کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستانی اختیار

آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک پاک بھارت مخاصمت و عداوت میں 73 برس گزر چکے ہیں اور بلاشبہ مسئلہ کشمیر دونوں کے مابین خوشگوار تعلقات کی راہ میں بنیادی تنازعہ ہے۔

یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھی گیا، بہت سے ممالک نے ثالثی کی کوشش بھی کی اور کئی بار پاک بھارت باہمی مذاکرات بھی ہوے لیکن کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ مودی سرکار کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے زریعے کشمیر کو بھارت میں شامل کیے جانے کے بعد ایک بار پھر مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر موجود مسائل میں صف اول پر آگیا ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی لمحہ ہولناک جنگ کی صورت عالمی امن سبوتاژ ہوسکتا ہے۔

اس مسئلے کو لیکر اگر پچھلی سات دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں پڑوسیوں نے سیاسی و سفارتی لحاظ سے کوئی کسر روا نہ رکھی, لیکن بجائے مفاہمت کے مخاصمت میں اضافہ ہوا۔ بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ پاکستان اسے اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہو تو کیونکر ہو اور پاکستان کے پاس مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کیا آپشن ہیں؟

تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس سوال کا قابل عمل حل سیاسی و سفارتی جدوجہد سے تو مشکل ترین نظر آتا ہے، ماضی کی تاریخ اور موجودہ چین، امریکہ رسہ کشی کے ماحول میں وقتی طور پر تو یہ ناممکن ہے۔ ماضی میں سیکیورٹی کونسل نے متعدد قراردادیں پاس کیں لیکن سوویت کے ہوتے ہوئے بھارت فائدہ اٹھاتا رہا اور اب اس کا الٹ یہ کہ بھارت کے ہاتھ امریکی، برطانوی، فرانسیسی سپورٹ موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان سیاسی و سفارتی میدان خالی کردے بلکہ کشمیر پالیسی میں جارحانہ رویہ اپنانا چاہئے اور انتظامی سطح پر کشمیر کمیٹی کو ختم کرکے کشمیر و بھارت ڈیسک قائم کرنی چاہئے جس میں سول و ملٹری اہل دانش و بینش کو تعینات کیا جائے۔

جس طرح امریکہ کی الگ الگ ڈیسک ہیں برائے جنوبی ایشیا، برائے مڈل ایسٹ، برائے افریقہ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی صورتحال میں جب عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ نہ ہوں تو پاکستان کے پاس کیا آپشن باقی رہتے ہیں؟ اس ضمن میں ایک تو روایتی طریق ہے کشمیری مجاہدین کی اخلاقی و سفارتی مدد جاری رکھیں لیکن اس سے بھارت کو پریشانی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے لیکن وہ کشمیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، کشمیری مجاہدین مسلح جدوجہد سے ایک طرف تو بھارتی فوج کو الجھائے رکھ سکتے ہیں دوسری طرح مسلح جدوجہد سے جانی نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن اس سے بھارت کو کوئی خاطرخواہ نقصان نہیں، وہ ہزار فوجیوں کے بدلے دو ہزار اور بھرتی کرسکتا ہے۔

دوم سفارتی محاذ کا اختیار ہے جو بارہا آزما آکر دیکھ لیا ہے لیکن مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوسکے۔ لہٰذا اب پاکستان کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لا کر سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ (Tit for Tat) کے تحت بھارت کو معاشی طور پر بلاک کرنا ہوگا، بھارتی منڈیوں کا زبردست نعم البدل پیدا کرنا ہوگا جیسے بھارت نے پاکستان کو معاشی کنگال کرنے کی کوشش کی اور اس نے اس کے لیے مذموم طریقہ اپناتے ہوے پاکستان میں دہشتگردی کا بازار گرم رکھا۔ پاکستان بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتا ہے لیکن مودی کے ہوتے ہوے کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ مرحوم جنرل حمید گل نے فرمایا تھا کہ مودی پاکستان کے لیے قدرت کا تحفہ ثابت ہوگا اور ویسا ہی ہوا، مودی نے ہندوتوائی پالیسیوں کے زریعے بھارت میں تقسیم در تقسیم کی سی صورتحال پیدا کردی ہے، مسلمان مجموعی طور پر خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں، سکھ بھی بھارت سے زیادہ خوش نہیں اور آج بھی ان کے دلوں میں 1984 کے زخم زندہ ہیں، اس کے علاوہ سیون سسٹرز میں پہلے سے آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، دلت بھی زخم کھا کھا کر آتش فشاں بنے بیٹھے ہیں، تامل اور بدھ خود کو ہندو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، ایسے میں کسی بھی لمحے بھارت کی گلی گلی جنگ چھڑ سکتی ہے جس پر قابو پانا بھارت کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ جس دن مودی کا پیدا کردہ یہ آتش فشاں پھٹے گا اس دن اس سے نکلنے والا لاوا بھارتی معیشت کو راکھ کردیگا۔ اس کے علاوہ مودی سرکار بھارت کی روایتی پالیسی کو ترک کرکے ایک طرف تو سیکیولرزم کی جگہ ہندو راشٹر اور دوسری طرف ریاست کو امریکی سیٹلائٹ بنا بیٹھی ہے نتیجتاً بھارت میں داخلی سطح پر بہت سی فالٹ لائن پیدا ہوگئی ہیں اور مزید ہونگی۔ جبکہ دوسری طرف چین کسی صورت بھی بھارت کو چین کی جگہ عالمی فیکٹری بننے نہیں دے گا۔ بھارت کی داخلی صورتحال نے ایک بار پھر وقت کے پہیے کو پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے اور ایک بار پھر وہاں تقسیم ہند سے پہلے کی سی صورت پیدا ہوگئی ہے اور پاکستان کو ان فالٹ لائنز و صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ اگلے پچھلے قرضے چکائے جاسکیں۔

جواب چھوڑ دیں