مسجد وزیر خان میں اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید کے گانے کی شوٹنگ کی تصاویر/ ٹیزر سامنے آنے کے بعد عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ انتہائی قبیح عمل ہے کہ خانہ خدا کو رقص گاہ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ انتظامیہ کی غفلت بلکہ نالائقی ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے اس قسم کے مناظر فلمائے گئے اور ان کی غیرت ایمانی سوئی پڑی رہی۔ اسی غم و غصے میں عوام کی طرف سے صبا قمر کے گھر پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔ دونوں عوام سے معافی مانگ چکے ہیں اور حکومت نے بھی اس واقعے کا گزشتہ کئی واقعات کی طرح نوٹس بھی لے لیا ہے۔ پھر بھی عوام و خواص کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچی ہے تو ان کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پنجاب حکومت نے بھی زمہ داران کی طلبی کی ہے۔
بحیثیت مسلمان مجھے اس بات کا بہت دکھ اور غصہ ہے مساجد کا تقدس ہمارے مذہب کی اساس میں شامل ہے۔ناصرف مساجد بلکہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا بھی ہم احترام کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جنگوں کے بعد بھی کسی کلیسا کسی گرجے کی بے حرمتی نہیں کی گئی۔
جہاں تک تعلق اس واقعے کا ہے تو میں کچھ کڑوے سچ بیان کرنا چاہتی ہوں۔ بات سچ ہے مگر بات بہت شدید رسوائی کی ہے۔
گزشتہ کئی سال سے ہم مختلف مساجد میں نو بیاہتا جوڑوں کے سیر سپاٹے(ہنی مون) دیکھتے آئے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو کسی مشہور مسجد نہ گیا ہو اور وہاں کم از کم ایک جوڑا اس کو ایسا نہ دکھا ہو؟ فیصل مسجد اور بادشاہی مسجد تو خاص طور پر اس میں آتی ہے۔ یہ نظارہ عام دیکھنے کو ملتا ہے کہ جوڑے باہوں میں بانہیں ڈالے مسجد کے احاطے میں اٹھکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ مسجد میں نماز ہو رہی ہوتی ہے ، نمازیوں کی ایک دو صفیں ہوتی ہیں جبکہ باہر سینکڑوں مرد و زن بے نیازی سے تصویریں کھنچوا رہے ہوتے ہیں۔ اب تو مساجد میں نکاح اور شادی کے بعد باقاعدہ فوٹو شوٹ کرایا جاتا ہے جن کے لیے ہزاروں لاکھوں کی بکنگ کی جاتی ہے۔ خدا لگتی کہوں تو جن پوز پر پورا پاکستان مساجد کے تقدس کی پامالی پر رو رہا ہے تقریبا ایسے ہی پوز بنوائے جاتے ہیں۔ گھومتے پھرتے افراد سے نماز کی طرف آنے کا کہا جائے تو علم ہوتا ہے کہ اکثر وضو کے بغیر ہی مسجد میں پائے جا رہے بلکہ دھندنا رہے ہیں۔ خواتین کے پاس دوپٹہ مناسب نہیں ہوتا نماز کے لئے دوسرا جتنا تیار ہو کر وہ آئی ہوتی ہیں اب ظاہر ہے اتنا مہنگا میک اپ دھو کر نماز تو نہیں پڑھ سکتیں اور فورا ہی عورتوں کی بہترین نماز گھر میں ہے والی حدیث بھی کورٹ کر دی جاتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ آپ مسجد کے آداب سے ناواقف ہیں؟ ؟
لباس کے معاملے میں ذرا بھی احتیاط نہیں کی جاتی۔ جہاں وہ برطانوی شہزادی بادشاہی مسجد میں مکمل بازو اور دوپٹے میں ادب احترام سے بیٹھی نظر آتی ہے تو وہیں ہماری لوکل شہزادیاں سر ڈھانپنے اور فل بازو کے لباس سے بے نیاز نظر آتی ہیں کجا کہ عبایہ پہنا ہو۔ خیر عبایات کے رنگ ڈھنگ کا بھی نا ہی پوچھیں ۔۔۔۔
افسوس تو یہ ہے کہ یہ صرف ہم پاکستانیوں کا حال نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں آج کل مساجد میں شادی کا فوٹو شوٹ کرنا عین ثواب گردانا جاتا ہے۔ وہ استنبول ہو یا اسلام آباد، لاہور ہو یا کینیڈا کا اسلامک سنٹر ہر جگہ یہ وبا نظر آ رہی ہے۔ یہاں تک کہ شادی شدہ جوڑوں نے حرم پاک بھی نہیں چھوڑا ہے۔ ہم میں سے اسلامی خیالات رکھنے والے افراد اکثر ایسی تصاویر کو پروموٹ کرتے نظر آتے ہیں جن میں ایک مرد عورت ہاتھ سے دل بنائے خانہ کعبہ یا گنبد خضری کے سامنے کھڑے ہیں ، یا منظر کچھ یوں ہوتا ایک آگے بڑھتے قدموں کو روکتا ایک مردانہ ہاتھ جس نے زنانہ ہاتھ کو تھام رکھا ہے اور پس منظر میں حرم مکی یا حرم مدنی۔۔۔۔
ان بھانڈوں اور میراثیوں نے بہت غلط کیا ہے۔ اس کی جس قدر مذمت ہو کم ہے مگر شرفاء کہلائے جانے والے لوگ کیا کرتے ہیں ؟؟ اس پر بھی تو غور کریں۔ان کو شہہ ان شرفاء کے طرز عمل نے ہی دی ہے۔ کیونکہ صبا قمر نے جو معذرت کی ہے اس میں یہ بھی کہا گیا ہم نے نکاح کے بعد ایک خوش باش جوڑے کے احساسات کو بیان کیا ہے۔ یعنی یہ سب اب دوسرے بہت سے معاملات کی طرح ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔۔۔ اس کی بھی تو مذمت کریں۔ ایسا بھی قانون پاس کیا جائے کہ مساجد میں تصاویر بالکل نا لی جائیں۔
آج مساجد نمازیوں سے خالی ہوتی جارہی ہیں اور ایسے چونچلوں سے بھرتی جا رہی ہیں۔
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے