ہمیشہ یہ سوچتا رہا کہ میں آزاد ہوں، ملک آزاد ہے،ہر چیز ایک سسٹم کے تحت چل رہی ہے جہاں ہر شخص اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری سے کررہا ہے ، اسکول لائف میں ہر جشن آزادی کے موقع پر ٹیلبو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا،کالج لائف میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن آج اچانک ایک شخص نے مجھے احساس دلایا کہ نہ میں آزادہوں اور نہ ہی ملک آزاد ہے،بلکہ میں ایک بدترین غلام بن چکا ہوں اور ملک غلیظ غلاموں کے ہتھے چڑھ چکا ہے، جہاں آج ہر چیز بکائوبن چکی ہے ، ہر چیز کی قیمت لگائی جاسکتی ہے ،یہاں ایماندار صرف وہ ہے جس کا بس نہیں چلا، باقی تو سب میرے تیرے جیسے ہی ہیں۔
گزشتہ روز ایک سڑک کنارے فروٹ بیچنے والے بابا جی سے آزادی کے حوالے سے بات چیت ہوئی، جس پر ان کا تبصرہ میری نظر میں سو فیصد درست ہے ۔ بابا جی نے کہا بیٹا کیا تم خود کو آزاد سمجھتے ہو؟ میں نے جواب دیا جی الحمداللہ میں خود کو آزاد سمجھتا ہوں، آزادی کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں ،آزادی کے ساتھ گھومتا پھرتا ہوں ، کھاتاپیتا ہوں اورکیا چاہیے۔ باباجی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا بس اسے تم آزادی سمجھتے ہو۔۔؟؟؟
میں نے کہا تو پھر آپ کس آزادی کی بات کررہے ہیں؟ باباجی نے جواب دیا کہ جسے تم آزادی کہتے ہویہ آزادی تو تمہیں امریکا ،اسرائیل ،یورپ اور اپنے پڑوسی ملک بھارت میں بھی مل جائے گی، بلکہ یہاں سے تو لاکھ درجے بہتر آزادی مل جائے گی۔ وہاں بھی تم آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکتے ہو، نماز پڑھ سکتے ہو، کھاپی سکتے ہو۔ لیکن یہ آزادی نہیں ، تم ان کی غلامی کرتے ہو بدلے میں وہ تمہیں تھوڑا سا خوش کرتے ہیں باقی اپنے اردگرد نظر ڈالو تو تمہیں میری بات صحیح طرح سے سمجھ آجائے گی۔ میںنے کہا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ذرا کھل کر بات کریںتاکہ میں بھی سمجھ سکوں آپ کس قسم کی آزادی کی بات کررہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ میری باتیں کڑوی ہیں ، مگر حقیقت میں سچی ہیں، مجھے لوگ پاگل کہتے ہیں، میں گاہک کے ساتھ زیادہ بحث نہیں کرتا ، کلو پر 10روپے منافع رکھتا ہوں، اس سے زیادہ لینا میرے نزدیک حرام ہے، اس لیے یہاں کے لوگ مجھے ٹھیلا بھی نہیں لگانے دیتے کہ میں ان کے گاہک خراب کررہا ہوں۔ لیکن اگر میں بھی کلو پر پچاس روپے منافع رکھوں تو پھر مجھ میں اور ان میں کیافرق رہ جائے گا۔
باباجی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جب ملک آزاد ہوا تو میں اس وقت چھوٹا سا تھا،لیکن اتنا ضرور ہے کہ ملک بنتے ضرور دیکھا۔
بابا جی نے کہا! بیٹا بات یہ ہے کہ یہاں کا ہر نظام بکائوہوچکا ہے ، یہاں عدالتیں صرف اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے لگائی جاتی ہیں ،غریب چھوٹی موٹی چوری میں پکڑا جائے تو ساری زندگی ضمانت نہیں ہوتی، مگر کوئی بڑا صاحب پکڑاجائے تو چھٹی والے دن بھی ضمانت ہوجاتی ہے، تم سمجھتے ہو پولیس تمہاری حفاظت کے لیے ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ پولیس قانون کی حفاظت کے لیے ہے تاکہ تم آزاد نہ ہوسکو،اسے تم سے کوئی غرض نہیں، تم سمجھتے ہوں سرکاری اسپتال میں علاج ہوتا ہے ، لیکن درحقیقت سرکاری اسپتالوں میںتم پر تجربے کیے جاتے ہیں، تم سمجھتے ہوں یہاں کا تعلیم کا ایک نظام ہے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں تعلیم کا کوئی نظام ہی نہیں، میں نے کسی زمانے میں انٹر کیا تھا ،لیکن آج بھی یہاں کے ماسٹر کرنے والوں سے بہت بہتر ہوں، تم سمجھتے ہوں کہ سرکار تمہاری سنتی ہے ، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری اپنی سنواتی ہے اوراپنی منواتی ہے ، اگر میری باتوں پر یقین نہیں تو پھر وزیراعظم سے ملاقات کرکے دیکھ لو، کیا تم وزیراعظم سے ملاقات کا تصور بھی کرسکتے ہو؟
اچھا چھوڑو وزیراعلیٰ سے مل سکتے ہو؟
گورنر سے مل سکتے ہو؟
یقینا تم ان لوگوں تک پہنچ بھی نہیں سکتے ، تم اپنے علاقے کے ایم این اے اورایم پی سے بھی ملاقات نہیں کرسکتے، تو پھر تم مان لو کے تم غلام اوروہ آقا ہیں۔ کیوں کہ ازل سے یہ ہی دستور چلا آرہاہے کہ آقا کبھی غلام سے ملاقات نہیں کرتا۔
باباجی نے گاہک کو فروٹ دیے پیسے اپنے جیب میں رکھے اور بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ پاکستان بنانے والوں نے قربانیاں دے کر ملک تمہارے اورہمارے حوالے کیا، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ملک صرف ان لوگوں کے لیے آزاد ہوا جو ان کی بہتر غلامی کرسکتے تھے ، ہمارے حکمران آج بھی گوروں کی غلامی کرتے اور یہاں تم ان کی غلامی کرتے ہو۔ تو پھر ان سب کے بیچ آزادی کہاں ہے؟ صرف ایک دن جھنڈا لہرانے ،قسمیں وعدے کرنے ، بائیک کا سائیلنسر نکالنے ، ہر ے ہرے کپڑے زیب تن کرنے اور گھومنے پھیرنے کو آزادی کہتے ہو تو پھر یہ آزادی تمہیں مبارک ہو۔ میں غلام ہی بہتر ہوں۔ میں ایک دن کی آزاد زندگی گزار کر اگلے دن پھر غلام بننا پسند نہیں کرتا۔
میںنے باباجی کی بات سنی اور کہا کہ آپ کیسی آزادی چاہتے ہیں۔ بابا جی نے میری طرف غور سے دیکھا،پھر کہاجس کا خواب دکھایاگیا تھا وہ آزادی چاہتا ہوں۔ جس میں کہا تھا کہ یہاں کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہوگی، یہاں امیر غریب سب برابر ہیں، یہاں قانون سب کے لیے ایک ہوگا، یہاں کا ہر نظام ہر شہری کے فائدے کے لیے ہوگا، یہاں ہرمذہب ،رنگ ونسل سے آزاد ہوکر کام کیاجائے گا۔ باباجی نے بات کرتے کرتے مجھ سے پوچھا، کیاکبھی قائد اعظم کے چودہ نکات پڑھے ہیں؟ میں ہڑبڑا کر جی پڑھے ہیں۔ یاد بھی ہیں یا صرف پڑھ رکھے ہیں؟ میں نے کہا یا د تو نہیں صرف پڑھے تھے اسکول میں۔
بابا جی مسکرائے اور کہاکہ جب تمہیں بانی ملک کے چودہ نکات یاد نہیں تو پھر تم کیسی آزادی کی بات کرتے ہو؟۔ یہاں سیاسی سوداگر تمہیں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور تم آزادی منا رہے ہو۔ تم نوجوان ہو، تم چاہو تو ان غلامی کی زنجیر کو توڑ سکتے ہو، مگر میں جانتا ہوں ان آقائو ںنے اتنی سخت بیڑیاں تمہارے دماغوں میں ڈال رکھی ہیں کہ تم چاہ کر بھی آزاد نہیں ہوسکتے۔ یہ تمہیں اس نہج پر لے آئے ہیں کہ تم ادھر ادھر دیکھ بھی نہیں سکتے، تم بولنا چاہتے ہو، مگر زبان میں اتنی سکت نہیں کہ تم کچھ بول سکو۔ تم اداروں کے خلاف بات نہیں کرسکتے، تم یہاں ہونے والے غلط کاموں کو ـغلط نہیں کہہ سکتے، ان آقائوں نے تمہیں مفلوج کردیا ہے اور تمہاری ساری توجہ اپنی غلامی پر لگا رکھی ہے اور پھر تم کہتے ہو کہ میں آزاد ہوں۔ یہ آزادی نہیں غلامی کی بدترین مثال ہے۔ پہلے جو غلام ہواکرتے تھے ان کے بھی کچھ حقوق ہوا کرتے تھے انہیں بھی تین وقت کا کھانا ملا کرتا تھا، ان کی بھی شادیاں ہوا کرتی تھیں، ان کے بھی بیوی بچے ہوتے تھے، لیکن وہ حقیقی غلام تھے انہیں بھی معلوم تھا کہ وہ غلام ہیں، لیکن آج ہم سب غلام ہیں مگر ہم اس حقیقت سے آنکھ چراتے رہتے ہیںاور خود کو آزاد کہتے ہیں، اگر تم واقعی آزاد ہوتے تو پھر تمہارے محلے میں موجود ایک کریانہ والا اپنی مرضی کے ریٹ پر آٹا نہ بیچ پاتا، دودھ والا مرضی سے دودھ نہ بیچتا، گوشت والا مرضی کے پیسوں سے گوشت نہ بیچتا، ہر چیز پرسرکار نے نظر رکھی ہوتی، لیکن تم غلام ہو، اس لیے ہر کوئی اپنی مرضی سے غلامی کررہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے غلام خود کو غلام مانتا تھا، مگر آج کا غلام خو د کو آزاد مانتا ہے، جیسے تم اور میں خود کو آزاد سمجھتے ہیں، یہ ایک دن کی آزادی ہے ، جشن منائو ، کل پھر وہی غلامی کی زندگی ہوگی اور تم ہوگے،وہ سرکاری ادارے ہوں گے اوروہی کرپشن ہوگی۔
باباجی نے فروٹ پر کپڑا مارتے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہا۔ کیا تمہیںمعلوم ہے آج کے دن چھٹی کیوں ہوتی ہے۔ میں جو بابا جی کی باتوں میں گم ہوچکا تھا اچانک سوال پر چونک اٹھااور کہا اس دن ملک آزاد ہوا اس خوشی میں؟
باباجی میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے لگے اورکہا تم یہاں بھی غلط ہو۔ کیوں کہ تم غلام ہو،اس لیے تمہاری سوچ بھی ایسی ہے۔ اس چھٹی کا مقصد دراصل سرکاری ملازمین کو گھروں میںرکھنا ہے تاکہ آج کے دن کم سے کم کوئی رشوت نہ لے، کوئی فائل ادھرسے ادھر کرنے کے پیسے نہ لے۔ ورنہ یہ کام تو روز ہی ہوتا ہے ، آج کم سے کم وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہوگا،اورسارے کاموں سے آزاد ہوگا، کل سرکاری اداروں میں جانا اوراپنا جائز کام کروانااور دیکھنا کیا تم آزاد ہو۔
باباجی کی باتیں سن کر میں سوچنے پر مجبورہوگیا کہ واقعی کیا میں آزاد ہوں یا غلامی کی بدترین سطح پر فائز ہوں۔ فیصلہ آپ کریں۔