مستقبل کا لفظ ذہن میں آتے ہی خیالات اور سوچ و فکر کے دائرے لا محدود وسعت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ حسین لفظ تصور کی دنیا میں ایسے سہانے سپنے دکھاتا ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہونے کے باوجود بھی ہمیں قیمتی اور عزیز تر ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ خواب ہی ہیں جن کو دیکھ کر ان کی تعبیر تک پہنچنے کا عزم افراد کی صلاحیتوں کو جِلا بخش کر ان سے ایسے کام کروا لیتا ہے جن پر باقی دنیا رشک کرتی ہے اور ایسے افراد رہتی دنیا تک کے لئیے نمونہ تقلید بن جاتے ہیں۔
اگست کا مہینہ بھی ہمیں ایک ایسی ہی جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کے حصول کی خواہش کو دنیا نےدیوانے کی بھیڑ قرار دیا مگر پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ محض سات سال کے قلیل عرصے میں ہی پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے ابھرا۔
گلیوں گلیوں بھٹک رہا تھا ایک سنہرا خواب جسے
میرے بڑوں نے اپنی لاکھوں نیندیں بیچ کے پالا تھا
پاکستان بلاشبہ عطیہ خداوندی اور ہمارے اسلاف کی لازوال قربابیوں کا حاصل ہے۔ مگر بدقسمتی سے مِن حیث القوم ہم خدا کی عطا کردہ اس خوبصورت نعمت کی قدر نہ کر سکے۔ کرپشن، اقربا پروری، عصبیت پرستی، لوٹ مار کی سیاست، قومی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کی پرستش اور اس جیسے سینکڑوں دیگر جرائم نے اس ملک کو محض چند سالوں میں ہی تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اس ارض پاک کی نظریاتی بنیادیں بھی ملک دشمن عناصر کی تیراندازیوں سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ آئے دن اسلام اور پاکستان کےتعلق کے حوالے سے اٹھنے والے بے بنیاد سوالات نے ہر محب وطن پاکستانی کو مضطرب اور بے چین کر دیا ہے۔ پاکستان کے اسلامی تشخص پر ہونے والی یلغاریں مشرف دور سے شروع ہوئیں جب روشن خیالی کا راگ الاپ کر ملک کی نظریاتی بنیادوں کا جنازہ نکالا گیا ۔ یہ رکیک پروپیگنڈا آج میڈیا کی وسعت کے باعث اپنے عروج پر پہنچا نظر آتا ہے۔ ایک طرف پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ ثابت کرنے کی کوششیں ہیں دوسری طرف اسلام کی لاتعداد اقسام ایجاد کر لی گئی ہیں تاکہ رائے عامہ کو اسلام سے برگشتہ کر دیا جائے۔ موجودہ حالات میں جو دانشور حضرات ملک کو سیکولر اسٹیٹ ثابت کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں وہ دانستہ و نادانستہ بیرونی ایجنڈے کی تابعداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ریاستی ڈھانچا صرف اور صرف اسلامی نظام کے تحت ہی استوار ہو سکتا ہے اور اس کی پشت پر بڑی ٹھوس وجوہات کارفرما ہیں۔
اس کی پہلی وجہ وہ محرکات ہیں جن کی بنا پر حصول پاکستان کی عظیم جدوجہد کی گئی۔ پاکستان صرف اور صرف اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا جس کےثبوت کے طور پر بابائے قوم محمد علی جناح کے بہت سے ارشادات ملاحظہ کئیے جا سکتے ہیں۔ ١٣ جنوری ١٩۴٨ میں اسلامیہ کالج پشاور سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ” پاکستان کے حصول کا مقصد کوئی خطہ ارض حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا ہے جہاں اسلام کے آفاقی اصولوں کو پنپنے کا موقع مل سکے”۔ ایک اور موقع پر قائد اعظم نے فرمایا کہ ” پاکستان کا مطلب یہی نہیں کہ ہم غیر ملکی حکومت سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس سے حقیقی مراد مسلم نظریہ ہے جس کا ہم تحفظ چاہتے ہیں۔ ہم نے صرف آزادی حاصل ہی نہیں کرنی بلکہ اس قابل بھی بننا ہے کہ ہم اس کی حفاظت کر سکیں اور اسلامی تصورات اور نظریہ کے مطابق زندگی بسر کر سکیں” ((١٨جون ١٩۴۵، پشاور)) قائد اعظم کے ان ارشادات سے یہ حقیقت خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے اور اس بنیاد کو مضبوط کرنے سے ہی پاکستان کی تعمیر وترقی ممکن ہے۔
دوسری طرف یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اسلام سے محبت رکھتی ہے اور اسلامی قوانین و نفاذ کی متمنی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جب بھی کوئی تحریک چلی عوام کی اکثریت اس تحریک کے ساتھ کھڑی تھی، یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ اس قسم کی تحریکوں اور مطالبات کو جبری ہتھکنڈوں کے ذریعے کچلا گیا۔ اسلامی شریعت اور قوانین کے خلاف پھیلائی گئی تمام تر غلط فہمیوں اور پروہیگنڈے کے باوجود عوام کی اکثریت اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ اسلام ہی کی بدولت امن، ترقی و خوشحالی کی وہ بہار آسکتی ہے جس سے آج کا پاکستان یکسر محروم ہے۔ قوم یہ بھی سمجھتی ہے کہ غیر اللہ کی حاکمیت سے انکار کا وہ وعدہ ہی دراصل ملکی وقار و بقا کا ضامن ہے جو آئین کی بنیاد قرارداد مقاصد کا حصہ ہے۔ گیلپ &گیلانی پاکستان کے ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانیوں کی بھاری اکثریت کے مطابق مذہب کسی بھی شخص کی زندگی میں بہت زیادہ خوشی کا باعث بن سکتا ہے۔ سروے میں ملک بھر سے شماریاتی طور پر منتخب خواتین و حضرات سے یہ پوچھا گیا تھا کہ ” آپ کے خیال میں انسان کی زندگی میں مذہب کس حد تک خوشی کا باعث بن سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں 69% جواب دہندگان کے مطابق انسان کی زندگی میں مذہب بہت زیادہ خوشی کا سبب بن سکتا ہے۔ 20 فیصد کے مطابق انسان کی زندگی میں مذہب کسی حد تک خوشی کا باعث بن سکتا ہے۔ ((گیلپ گیلانی پاکستان پول، 16 ستمبر 2019)) اس سروے کے نتائج سے پاکستانی عوام کا مذہب سے تعلق اور لگاؤ کابخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے۔
پاکستان اور اسلام کے تعلق کی تیسری دلیل یہ ہے کہ پاکستان کا آئین بذات خود اسلامی نظریہ حیات کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ آئین کا دیباچہ قرارداد مقاصد پر مشتمل وہ تاریخی دستاویز ہے جس میں یہ واشگاف اعلان موجود ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے اور انسان کے پاس یہ اقتدار محض ایک امانت ہے۔ آئین کی دفعہ دو کے تحت اسلام مملکت کا سرکاری مذہب ہے۔ آئین کی دفعہ 227 کے تحت ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ آئینی طور پر صدر اور وزیر اعظم کے لئیے مسلمان ہونا لازمی شرط ہے۔
پاکستان کی طویل تاریخ، ملکی آئین اور عوام کی اکثریت کے جذبات۔ یہ تین عناصر اس امر کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام کے سوا کوئی اور نظریہ حیات اس سرزمین پر نہ پنپ سکتا ہے نہ ہی اپنی بقاکا رستہ ڈھونڈ سکتا ہے۔پاکستان اور اسلام کا رشتہ ازلی ہے جو ابد تک رہے گا۔ ملک کے دلخراش حالات گواہی دے رہے ہیں کہ صرف اسلام کا دامن رحمت ہی ہے جو آج کے تباہ حال اور اپنی بقا کی جنگ لڑتے پاکستان کو امن و سکون اور پائیدار راحتوں سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ یقیناً اس روشن و خوبصورت سحر کا طلوع بہت قریب ہے جس کا دلفریب خواب ہمارے بزرگوں نے آج سے نصف صدی قبل دیکھا تھا۔