دنیا کی دو بڑی عالمی طاقتوں چین اور امریکا کے درمیان اقتصادی ،سفارتی ، سیاسی اور تکنیکی میدانوں میں جاری کشمکش اس وقت عروج پر ہے۔چین کی شدید مخالفت اور اعتراضات کے باوجود امریکی وزیر صحت الیکس آزر کے دورہ تائیوان نے تناو میں مزید اضافہ کیا ہے اس سے قبل امریکا کی جانب سے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانے کی بندش کے بعد چین نے بھی چھنگ دو میں امریکی قونصل خانہ بند کر دیا ،تجارتی اعتبار سے بھی دونوں بڑے ممالک کے درمیان تعلقات خوشگوارسمت میں نہیں جا رہے ہیں ، امریکا کی جانب سے چینی شہریوں ،صحافیوں اور طلباء پر پابندیوں سے افرادی تبادلے بھی زوال کا شکار ہیں ، امریکا نے قومی سلامتی کے جواز کے تحت چین کے معروف ہائی ٹیک اداروں پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ اس اقدام کو ملک میں “کلین نیٹ ورک”کی تشکیل قرار دیا گیا ہے ، جنوبی بحیرہ چین میں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں اور سب سے بڑھ کر خطرناک بات یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ مسلسل چینی کمیونسٹ پارٹی کی مخالفت میں بیانات جاری کر رہی ہے۔
عالمی سیاسی منظر نامے میں یہ ایک عام روایت ہے کہ مخالفین کی جانب سے کسی بھی ملک میں برسراقتدار قیادت یا حکومت پر تنقید کی جاتی ہے اور کسی سیاسی جماعت کا تذکرہ زیادہ نہیں کیا جاتا ہے ،مگر امریکی حکام کی جانب سے چین کو نشانہ بنانے کے لیے باربار “چینی کمیونسٹ پارٹی” کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اصل ہدف چینی حکومت کی پالیسیاں نہیں بلکہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی گورننس ہے۔چین میں کمیو نسٹ پارٹی کی جڑیں عوام میں انتہائی مضبوط ہیں اور ایک ارب چالیس کروڑ چینی باشندوں کی مضبوط حمایت اسے دنیا کی دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا )سی پی سی( کی قیادت میں چینی عوام نے نہ صرف جدید چین کے قیام کی بنیاد رکھی بلکہ معجزاتی ترقی کا سفر بھی انتہائی تیزرفتاری سے طے کیا ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ “سی پی سی اور چین” کو ئی جداگانہ تصور نہیں ہے ۔
چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کو آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ چالیس برسوں میں 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے نجات دلائی گئی ہے جو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں ایک غیر معمولی کردار ہے۔اقتصادی سماجی ترقی سے متعلق پالیسی سازی میں ہمیشہ عوام کو مقدم رکھا گیا ہے اور یہی جھلک ہمیں کووڈ۔19کے خلاف چین کی غیر معمولی فتح اور بے مثال کامیابیوں میں نظر آتی ہے۔
ابھی حالیہ دنوں چین کے اکثر علاقوں میں سیلابی صورتحال کے باعث تقریباً 37 لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر تمام لازمی اقدامات اپنائے گئے۔رواں برس ملک سے غربت کے مکمل خاتمے اور ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تشکیل سمیت عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق بے شمار ایسے منصوبے ہیں جن کی بناء پر چینی کمیونسٹ پارٹی چینی عوام میں ہردلعزیز ہے۔اس وقت چین میں اقتصادی سماجی ترقی سے متعلق 14 واں پانچ سالہ منصوبہ تشکیل دیا جا رہا ہے جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی آراء لی جا رہی ہے تاکہ عوامی تقاضوں کے مطابق ترقی کے سفر کو آگے بڑھایا جا سکے۔دوسری جانب نوول کورونا وائرس سے شدید متاثرہ ملک امریکہ میں مصدقہ مریضوں کی تعداد پچاس لاکھ کی خطرناک حد کو چھو چکی ہے جبکہ کووڈ۔19 کے باعث ہونے والی ایک لاکھ باسٹھ ہزار سے زائد اموات بھی عالمی سطح پر ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کا ایک تہائی ہیں۔
امریکی حکومت کی انسداد وبا کی ناکام حکمت عملی کو ملکی سطح کے ساتھ ساتھ عالمی حلقوں میں بھی تنقید کا سامنا ہے۔ناقدین کے خیال میں ٹرمپ انتظامیہ کا محور وبا کی روک تھام و کنٹرول کی بجائے سیاست ہے اور چین کے خلاف جارحانہ حکمت عملی بھی اسی سیاسی کھیل کا ایک حصہ ہے جس کا ایک بڑا مقصد نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی کا حصول ہے۔ تقریباً نصف صدی قبل امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنے تاریخی دورہ چین کے دوران صدر جارج واشنگٹن کا ایک قول دوہرایا تھا کہ “دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ منصفانہ اور مخلصانہ رویوں پر عمل پیرا رہا جائے اور سب کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کو پروان چڑھایا جائے “۔آج امریکہ کی خارجہ پالیسی میں انہی اقدار کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ چین کو بدنام کرنے سے امریکہ کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔
اس وقت امریکا خود مختلف اعتبار سے منقسم ہے اور اگر صدر ٹرمپ کا یہ گمان ہے کہ چین مخالف جذبات سے وہ ملک کے مختلف حلقوں کو متحد کر سکیں گے تو اسے خا م خیالی ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔سیاست اور سماج میں” پولرائزیشن” امریکہ کو پستی کی جانب دھکیل رہی ہے ۔اس وقت چین کو دبانے کی امریکی پالیسیاں بظاہر ایک نئی سردجنگ اور زیروسم گیم کی عکاس ہیں جبکہ اندرونی سطح پر ملک کو معیشت میں شدید گراوٹ، نسل پرستی ،تارکین وطن کے مسائل ، عدم مساوات اور صحت عامہ کے تحفظ کے سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔
ایسے میں چین جیسےبڑے ملک سے محاذآرائی خود امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے ، امریکہ کو کھلے پن اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کی ترقی کے تجربات سے سیکھنا چاہیے ناکہ ایسی رکاوٹیں پیدا کرنی چاہیے جو انسداد وبا کے ساتھ ساتھ عالمگیریت کی ترقی میں بھی حائل ہوں.امریکہ اور چین دونوں کے سماجی نظام اور گورننس ماڈلز ضرور الگ سہی لیکن ترقی کی جستجو ،عوامی فلاح و بہبود اور عالمگیر مثبت قائدانہ کردار دونوں کی یکساں خواہش ہے۔ایسے میں ایک بہتر اور محفوظ دنیا کےقیام میں دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان مسابقت کی بجائے مساوی بنیادوں پر ٹھوس عملی تعاون نہ صرف چین۔امریکہ بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔ چین کی کبھی بھی یہ خواہش نہیں رہی ہے کہ وہ عالمی معیشت میں امریکہ پر سبقت حاصل کرے ، چین مشترکہ مفاد اور یکساں خوشحالی کی بات کرتا ہے۔
اگر کووڈ۔19 ہی کی بات کی جائے تو چین نے طبی حمایت ،قرضوں میں ریلیف ، تکنیکی معاونت اور تجارتی روابط کے فروغ سے اپنے بیانیے کو عمل سے ثابت کیا ہے۔وائٹ ہاوس اور بیجنگ کے درمیان مذاکرات سے دوطرفہ مسائل کا حل عالمی امن ،استحکام اور ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں انتہائی اہم ہے کیونکہ دونوں ممالک کا عالمی و علاقائی امور میں گہرا اثرورسوخ ہے جبکہ محازآرائی سے انسداد وبا کی کوششوں سمیت پورا “ورلڈ آرڈر “شدید طور پر متاثر ہو سکتا ہے۔