لے کے رہیں گے پاکستان ، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔ لاہور کا منٹو پارک فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا۔ میں اپنی ڈائری اور قلم ہاتھ میں لیے مجمع میں داخل ہوتی ہوں، ایک بزرگ بڑے جوش و خروش سے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں کہ میں ان سے جا کے پوچھتی ہوں کہ آپ علیحدہ وطن حاصل کرنا کیوں چاہتے ہیں؟؟ ہم مسلمان ہیں ہمارا الگ ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اپنی مرضی سے اپنے دین کے مطابق زندگی گزار سکیں۔اسٹیج سے بھر پور نعرے شروع ہوتے ہیں اور میں آگے نوجوان کی طرف بڑھتی ہوں اور سوال کرتی ہوں کہ آپ علیحدہ ملک کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟؟
جواب ملتا ہے کہ بس بہت ہوگیا ہم مزید ہندوؤں اور انگریزوں کے محکوم نہیں بن سکتے، ہم ہندوؤں کی غلامی کو برداشت نہیں کرسکتے ہمارے نوجوانوں کے خون میں غلامی شامل نہیں ہو سکتی، ہم سر اٹھا کر عزت و وقار کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، ہم سر اٹھا کر زندہ قوم کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ اسکا جواب اپنی عمر کے مطابق جوش و خروش سے بھر پور تھا۔میں نظر ہٹا کر دوسری طرف ادھیڑ عمر کے شخص کی جانب بڑھتی ہوں جو غور سے اسٹیج پہ ہونے والی تقریر کو سن رہے ہوتے ہیں، میں ان سے سوال کرتی ہوں کہ آپکی نئے ملک سے کیا امیدیں وابستہ ہیں؟؟
جواب ملتا ہے کہ ہمارا ملک ایسا ملک ہوگا جہاں سب برابر ہوں گے، جہاں کی حکومت اور حکمراں عادل ہوں گے، جہاں کی رعایا خوشحال ہوگی، جہاں انصاف قائم رہے گا، جہاں ایک بہترین مثالی معاشرہ قائم ہوگا، جہاں ماؤں بیٹیوں کی عزتیں محفوظ ہونگیں، جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کا خیال رکھے گا۔میں اپنی ڈائری سنبھالتے ہوئےآگے بڑھتی ہوں اور ضعیف سے بزرگ سے پوچھتی ہوں کہ بابا جی آپ کو کیا لگتا ہے کہ نیا ملک بن جائے گا ؟؟بابا جی اپنی مسکراتی آنکھوں سے مجھے کہتے ہیں کہ بیٹا یہ بھرا مجمع دیکھ رہی ہو؟؟
انکی آنکھوں کی چمک دیکھو، انکا جوش و خروش اور ولولہ دیکھو، انکے عزم اور حوصلے دیکھو ، آزادی کی چنگاری اب وہ آگ بن چکی ہے جو اب ظلم کے ایوانوں کو جلا کر ہی دم لے گی، ان جیالوں کے قدموں کو اب کوئی روک نہیں سکتا، تم دیکھنا بیٹا۔۔۔!! یہ آگ کے دریا میں کود جائینگے، یہ اپنے سر کٹوا لینگے، اپنی گردنیں کٹوا لیں گے، لیکن یہ قافلہ اب رک نہیں سکتا اب اس جنون کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔۔۔۔!!!اگلی صبح میں نکلتی ہوں اس نئے وطن میں جو ہمارے ملک کے عظیم رہنماؤں نے آزاد کرادیا تھا۔
میں اپنی ڈائری اور قلم ہاتھ میں لیتے ہو ئے ہجوم میں موجود ہوتی ہوں، بے ترتیب سا ہجوم، راستوں پہ رواں دواں، تنزل سے نا آشنا۔۔۔، میں ایک شخص کو روکتی ہوں اور پوچھتی ہوں کہ یہ کونسا مہینہ ہے…؟؟؟ جی “اگست کا” عجلت میں جواب آتا ہے، جی (آزادی کا) میں اپنا مطلوبہ جواب بھی خود دے دیتی ہوں، میں مزید آگے قدم بڑھاتی ہوں تو کالج میں پڑھنے والے چند نوجوانوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔ میں پوچھتی کہ آزادی حاصل کرکے کیا محسوس ہو رہا ہے؟؟ کتاب پڑھتا ایک نوجوان جواب دیتا ہے کہ یہ آزادی جو ہمیں عظیم رہنماؤں کے ذریعے ملی یہ بہت بڑی نعمت ہے ہمیں اس آزادی کی قدر کرنی چاہیے اپنے ملک کو خوشحال اور اسلامی پاکستان بنانا چاہیے ہمیں بھی اپنی جانیں قربان کردینے چاہئیں اس وطن کی خاطر۔ اخوت بھائی چارگی قائم رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔۔۔!!
یہ تھا ماضی کا پاکستان۔۔۔میں اپنی ڈائری اور قلم اٹھاتے مستقبل کے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے مزید آگے بڑھتی ہوں تو ہوٹل پہ بیٹھے پان کھاتے کچھ نوجوانوں سے سوال کرتی ہوں….!! آزادی منانے کی تیاری کرلی ؟؟؟ فرسٹ کلاس لمبے بالوں کی پونی بنائے ایک لڑکا جواب دیتا ہے۔۔۔،، کیا تیاری میں قلم تیزی سے چلاتے ہو اپنی ڈائری کا صفحہ بھرتی ہوں۔۔۔ رات کو میوزک شو ہے، پھر بائیکوں پہ سوار ہو کر سڑکوں پہ گشت کرینگے، جھنڈے لہرائینگے،موج مستی کرینگے۔۔۔ اور آزادی کے دن کیا کرینگے آپ ؟؟ سڑک کے کنارے بیٹھا پان کھاتا نوجوان جواب دیتا ہے کہ حکومت نے عام تعطیل دی ہے اس لیے سو کر گزارینگے اپنا دن۔
آپ کو پتہ ہے کہ آزادی کا مقصد کیا تھا؟؟ میں انھیں اصل موضوع کی جانب لانے کی کوشش کرتی۔۔۔،، آزادی سے کھائیں پیئیں موج مستی کریں اور کیا،،، اتنے میں جواب آتا کہ اب آپ ہمیں قرارداد پاکستان کے بارے میں بتانا مت شروع کردیے گا ہم نے بھی نہم کلاس پڑھی ہوئی ہے اور یوں ہی زوردار قہقہ لگانے کی آواز آتی ہے۔۔۔۔ ،،، مجھے لگتا تھا کہ شاید اب کوئی ایسا جواب مل جائےجس پہ میری امید جاگ جائے مگر افسوس۔۔۔!! میرے سوال ڈوب گئے۔۔ میں دوسری جانب کونے میں جاکر بیٹھ گئی اور سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ نہیں یہ وہ پاکستان نہیں ہے، یہ وہ پاکستان نہیں ہے۔۔!!!
کہ جس پاکستان کا خواب اقبال نے دیکھا تھا، کہ جس پاکستان کا وعدہ قائد اعظم نے پورا کیا، یہ وہ پاکستان نہیں ہے کہ جس پاکستان کی خاطر لوگوں نے قربانیاں دیں،ماؤں نے اپنے جیالے قربان کردیے، جس پاکستان کی خاطر بیٹیوں، اور ماؤں کی عصمتیں لٹیں، کہ جس پاکستان میں دیانت داری امانت داری تھی، عدل و انصاف تھا، خوشحالی تھی وہاں کرپشن نہیں تھی، وہاں سب برابر تھے، وہاں کی عوام بھوکی نہیں تھی ، وہاں کے غریب پریشان حال نہیں تھے، وہاں کی حکومت ایسی نہیں تھی، وہاں گلیوں میں آوارہ قہقے نہیں تھے ، وہاں کے نوجوانوں کے اندر جذبہ تھا قوت تھی ایمان تھا۔۔۔۔۔!!
آہ میرے مولا۔۔۔!!!
میرے قلم کی روشنائی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ میں اٹھ کر وہاں سے چل دیتی آنکھوں میں آنسؤں کے قطرے موجود تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان قطروں سے امید کی ایک کونپل پھوٹتی، اور میں کہتی کہ نہیں میں نے اس کونپل کو مرنے نہیں دینا۔ اب کی بار مجھے اسے تناور درخت بنانا ہے، اب مجھے اندھیروں سے شکوہ نہیں کرنا ہے، مجھے خود چراغ جلانا ہے اپنے قلم سے اپنے عمل سے اپنی زبان سے۔۔۔،،، مجھے اس قوم جگانا ہے، امید دلانی ہے، کہ تم ابھی باقی ہو۔۔، کہ تم اب بھی ایک زندہ قوم ہو اٹھو کھڑے ہو جاؤ اپنی آزادی کے حق میں۔۔۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔!!
” مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ الا اللّٰہ”