یہ اکیسویں صدی بہت ہی ترقی یافتہ اور تیز رفتار ضرور ہے مگر اس دور نے انسانوں کو ایسے راستے پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں پر اِن میں انسانیت‘ حسن سلوک‘ رحم دلی ‘ خلوص اور ہمدردی نام کی کوئی چیز ہی باقی نہ رہی ہے ۔ ہم ایسے نفسا نفسی کے دور سے گزر رہے ہیں جہاں سب کواپنی جان کی پڑی ہوئی ہے وہ دوسروں کی ذرا بھی فکرکرنا گناہ سمجھ رہے ہیں۔ بس اپنی جان بچ جائے یہی ان کے لیے کافی ہے۔آج ہم پر یہ جو حالات آئے ہیں‘اس کی وجہ کیا ہے؟یہ کیوں آئے ہیں؟
اس پرغور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کا ذمہ دار خود انسان ہی ہے۔ اس دور میں ہر ماں‘ ہر بیٹی ‘ہر بہن ‘ہر بیوی خون کے آنسو وںرورہے ہیں۔ ان کے آنسو ں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کے آنسوئوں کی وجہ انسانیت کا نہ ہونا ہے۔ کسی کے گھر سے فون آیا کہ انتقال ہوگیا تو سب سے پہلے سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ’’ کیا ان کو کورونا ہوگیا تھا؟‘‘ ۔ پھر یہ پوچھا جارہا ہے کہ کس وجہ سے انتقال ہوا ہے؟ ۔تو آپ لوگ سوچئے کہ اس گھر کے افراد خانہ کو کتنی تکلیف ہوگی۔کیا آج کے دور کے لوگ اس قدر سنگ دل ہوسکتے ہیں ۔لوگ دوسروں کے غم میں شریک ہونے کے بجائے اپنے ہی غم میں مبتلا ہیں ۔ہر گھر میں ہر روز دن بہ دن جنازے نکل رہے ہیں۔
ہم دوسروں کو پرسہ دینے کے بجائے اپنے گھروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ہم اپنے افراد خاندان اور ساتھیوں کی فکر تک نہیں کررہے ہیں ۔ جو شخص دنیا سے چلاجارہا ہے۔اس کے جنازہ میں شرکت نہیں کررہے ہیں اور ان کا دماغ یہ یقین نہیں کر پارہا ہے کہ وہ شخص کیسا مرا ہوگا ؟کیا اسے سچ میں کورونا ہواہوگا۔ یہی حال ہر انسان کا ہے ۔میرے والد صاحب کے انتقال پر بھی سب سے پہلے یہی سوال ہوا کہ کیسے انتقال ہوا؟۔ہم نے کہاں بیمار تھے‘ تب بھی سوال یہی پوچھا گیا کہ کیوں کیا ہوا تھا؟اور ایک رشتہ دار نے تو صاف کہہ دیا کہ تمہارے والد بیمار تھے یا ان کو کورونا ہوگیاتھا؟تو ہم نے جوا ب دیا کہ اگران کوکورونا ہوتا توہم اس کی اطلاع صاف طورپر دیتے کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ دوسروں کو وباء پھیلائیں۔تب سے ہم لوگ نے ان کے گھرجانا ترک کردیا۔
میں سوچ نہیں سکتی تھی کہ ہمارے رشتہ دار ایسا لفظ کہیں گے جہاں پر ایک باپ دومہنے سے بستر مرگ پر ہو‘ ایک بیٹی کے دل پریہ الفاظ کی گونج کیا گزری ہوگی مگر پھر بھی اللہ نے میرے صبر کو تھامے رکھا ۔میں نے ان کو جواب دیا کہ کئی بڑی شخصیات اس سال ہم سے جدا ہوگئے۔ فلم‘ادب‘اسپورٹس ‘تجارت‘ سیاست غرض دنیا کے ہرشعبہ کی عظیم شخصیات اس سال دنیا سے کوچ کرگئے۔کیا ان سب کوکورونا ہوگا ہوگا ؟۔ بعض بیووقوف مان رہے ہیں ان کو بھی کورونا ہوا تھا اس لئے مر گئے۔ ارے بابا موت آئی مرگئے ۔
موت کا ایک دن معین ہے
ہر کسی کے لئے ہم یہ نہیں سکتے نا کہ ان کو اس مہلک بیماری نے اپنے لپیٹ میں لے لیا ۔ ایسا رشتہ جس میں انسانیت ہی نہ ہو میرے لیے بے معنی ہے۔ میں سمجھتی ہوں جو حالات چل رہے ہیں اس کا ذمہ دار خود انسان ہی ہے ۔
میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ میرے بابا اتنا جلدی اس دنیا کو خیر آباد کہ دیں گے۔ ان کی یاد یں میرے مقدر ہی بن کر رہ جائیں گی۔ جانے والے چلے جاتے ہیں مگر ان کی یادیں ہمیشہ باقی رہتی ہے ۔ہر بیٹی کے لئے باپ کی محبت کیا ہوتی ہے ایک بیٹی سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔ دنیا میں والدین کا پیار دوبارہ کبھی نہیں مل سکتا یہ میں نے اپنے بابا کے انتقال کے بعد جانا اور یہی سوچا کہ شاید میری قسمت میں بابا کی محبت یہاں تک ہی باقی تھی شاید میرے نصیب میں میری اور بھائی کی شادی کی خوشی دیکھنا نہیں لکھا تھا ۔۱۷ جولائی۲۰۲۰ جمعہ کے دن ٹھیک گیارہ بجے میرے بابا جناب واحد خان صاحب نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔ تب میری زبان سے انتقال نام کا لفظ تک نہیں نکل پایا مجھے یقین ہی نہ ہوا کہ جس شخص کو میں بیڈ پر دیکھ رہی ہو اس کا دل دھک دھک کرنا بند ہوگیا ہے اوریہی میرے بابا ہیں ۔
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
میرے بابا کئی ماہ سے ہم سب سے کہہ رہے تھے بیٹا دنیا میںحالات بہت خراب ہورہے ہیں۔ ہرملک اپنے آپ کوبڑا سمجھ رہا ہے۔ اور دوسروں کومٹانے کی فکر میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیسری جنگ کی ابتداء ہوچکی ہے ۔کئی ممالک میں نااتفاقیاں بڑھتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ہم پر نازل ہواہے۔ اس عذاب کو دور کرنے کے لئے انسانوں کواللہ سے رجوع ہونا چاہئے اوردوسروں کا درد وغم سمجھ کرانسانیت کامظاہرہ کرنا چاہئے۔ تب ہی اس بیماری سے ہم کوچھٹکارا ملے گا۔ میرے والد صاحب کی ایک عادت تھی اکثر ٹیلی ویژن پر ساری خبریں سن کر مجھے اور والدہ کو سناتے‘ خاص کر بین الاقوامی خبریں۔ لیکن کچھ دن سے کمزوری زیادہ ہوچکی تھی شاید اللہ پاک کا یہی حکم تھا کہ رزق کا شکم میں پہنچناکم ہوگیا تھا ۔ہم نے کہا کہ بابا جی ہاسپٹل چلئے توہماری بات نہیں مانتے۔ کہتے کہ اس دور میں بیماری کورونا نہیں ہے بیٹا بلکہ بیماری انسانوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز کا باقی نا رہنا‘ مفاد پرستی عام ہونا ہے۔ یہ عذاب ان کی کرنی کا پھل کورونا وائرس کا ڈر ہے ۔اس دور میں لوگ وائرس سے نہیں مر رہے بلکہ چھوٹی سی بیماری کھانسی بخار کو عام سمجھ رہے ہیں۔ بی پی شوگر کے مریض اس لئے دواخانے کا رخ نہیں کررہے ہیں کیونکہ جاتے ہی ان کو ڈاکٹر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی’’ دور ہٹو دور ہٹو ‘‘کے نعرے دے رہے ہیں ۔ تو ہم نے کہا با با جی چلئے خانگی اسپتال ‘تو انھوں نے کہا تھا نہیں وہاں کا رخ ہی نہیں کرنا ہے۔وہاں کا عملہ بہت ڈرپوک ہوتا ہے۔میرے بابا کی بات سچ تھی کیونکہ جس بات کی طرف انہوں نے اشارہ دیاتھا وہ وہ بالکل سچ نکلی۔ جب میں اپنے والد کے ساتھ خانگی ہاسپٹل گئی تو ڈاکٹر بی پی چیک کئے بغیر دوائی کا قلم چلادیا ۔جب سرکاری اسپتال گئی تو ڈاکٹر مجھ سے صحیح ڈھنگ سے بات نہیں کررہے تھے اور ان کا دماغ چھڑ چھڑاہٹ سے بھرا اور لہجہ ایسا کہ وہ ہم پر احسان کررہے ہیں ۔میں نے اپنے دل میں سوچا واہ رے اس دور کے مفاد پرست ‘ کیاتیری خود غرضی نرالی ہے یہی کام ہے تمہارا ۔۔۔
ڈاکٹر کا فرض ہوتا ہے کہ مریض کی جان بچانا مگر وہ اپنی جان کی حفاظت کرنے میں ہی عافیت سمجھ رہے ہیں۔ خانگی دوا خانوں میں جب کوئی ایمرجنسی کیس کے مریض کو لے جایا جارہا ہے تو فوراََ انکار کردے رہے ہیں۔ڈررہے ہیں کہ کہیں مریض کورونا سے متاثر تو نہیں ہے۔ آخر کار انجام اس مریض کی موت ہورہا ہے ۔سرکاری اسپتال میں جب مریض کو ایمرجنسی وارڈ میں داخل کیا جارہا ہے تو داکٹر کی نگاہ اسمارٹ فون پر انگلیاں جمانے میں رہ رہی ہے اور اگر اس مریض کے رشتہ دار مریض کے علاج کیلئے کہہ رہے ہیں تو فوراََ جواب آرہا ہے کہ کوئی دوسرے ڈاکٹر کو ڈھونڈ لو۔کیا انسان اتنا مفاد پرست ہوگیا ہے کہ اسے اپنے جان کی پڑی ہے۔ دوسروں کی زندگی اس کے لئے بے معنی ہے۔ ایسے حالات اگر برقرار رہے تو لوگوں کی اموات میں دن بہ دن اضافہ ہوگا ۔ڈاکٹر کا فرض مریض کی جان بچانا ہوتا ہے مگر وہ اسے ہاتھ لگانے میں بھی خوف محسوس کررہا ہے ۔موت تو ایک دن سب کوآنی ہے ۔ جب انسان پید اہوا ہے تو اسے فنا بھی ہونا ہی ہے۔اگرحالات ایسے ہی جاری رہیں گے تو لوگوں کی جان کیسے بچے گی؟۔بیمار لوگوں کا ملک کس طرح ترقی کرپائے گا۔ زیادہ تر لوگ اس ماحول میں ہیبت اور خوف میں ہی مارے جارہے ہیں۔ اس لئے میں یہ کہنا چاہونگی کہ اگر ہم اس حالات کا سامنا احتیاط کے ساتھ انسانیت کامظاہرہ کرتے ہوئے کریں گے تو ضرور اس بیماری کا خاتمہ ہوگا اور ہم سکون کی سانس لیں گے۔ایسے حالات میں ہم سب کوچاہئے کہ رشتہ داروں اور دوستوں کا خیال کریں ۔لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔مصیبت کے وقت ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھے۔ انسانیت او ررحمدلی کامظاہرہ کریں۔
٭٭٭