ماریہ ایک نابینا لڑکی تھی۔ وہ خود سے، نابینا ہونے کی وجہ سے نفرت کرتی تھی۔ اسے دنیا کی ہر چیز اور ہر شخص سوائے اپنے منگیتر کے بہت برا لگتا تھا۔ ایک دن اس نابینہ لڑکی نے اپنے منگیتر سے کہا میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں لیکن ایک شرط پر۔ منگیتر بولا شرط بھی ہے، کہو کیا شرط ہے کہ معلوم ہو سکے آپ کی شرط قابل قبول اور میرے بس کی بات بھی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد حتمی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ لڑکی نے کہا اگر میں دنیا کی رنگینیاں دیکھنے کے قابل ہو جاؤں تو آپ سے شادی کر سکتی ہوں۔ خیر اس شرط پر بات چیت ہوئی اور مجلس تمام ہوئی۔
ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ اس لڑکی کو کسی نے آنکھوں کا جوڑا عطیہ کر دیا۔ جس سے وہ دنیا کی رنگینیاں دیکھنے کے قابل ہو گئی۔ اب وہ اپنے منگیتر کو بھی دیکھ سکتی تھی،لیکن ابھی تک دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا، صرف اس کی پہچان اس کی آواز سے ہو سکتی تھی۔ ایک دن وہ کس جگہ ٹہل رہی تھی کہ اچانک ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔”اب جبکہ آپ دنیا کی رنگینیاں دیکھنے کے قابل ہو چکی ہیں، اور ان سے خوب لطف اندوز بھی ہو رہی ہیں، تو کیا مجھ سے شادی کرنا پسند فرمائیں گی؟ لڑکی نے آواز کی جہت کی طرف رخ کیا تو سامنے ایک اندھا لڑکا کھڑا تھا۔ اسے یہ دیکھ کر بہت حیرانگی ہوئی کہ یہ اندھا اسی کا منگیتر تھا۔ چنانچہ اس کے اندھے پن کی وجہ سے عورت نے شادی سے انکار کر دیا۔ اس رویہ سے اس کے منگیتر کو بہت دکھ ہوا اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ رخصت ہو گیا۔
کچھ دن گزر گئے ایک دن یہ لڑکی بیٹھی تخیلات کی وادیوں میں محو سفر تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی،لڑکی نے دروازہ کھولا ۔ ایک ڈاکیا اپنے ہاتھ میں ایک خط لئے اس لڑکی کی طرف بڑھا نے لگا کہ یہ آپ کا ہے۔ اور خط دے کر روانہ ہوگیا۔ لڑکی نے خط کھولا تو یہ اس کے منگیتر کی طرف سے تھا۔ اسے پہلے غصہ آیا کہ یہ اندھا اب میری جان نہیں چھوڑ رہا۔ لیکن پھر بادل نخواستہ اس خط کو کھولا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی جب اس نے یہ جملہ پڑھا” اور کچھ نہیں چاہتا بس میری آنکھوں کا خیال رکھنا”۔
لکھنے والے نے لکھا یہی وہ صورتحال ہے جب انسان کی حیثیت بدل جائے تو اس کا اس کی دماغی کیفیت بھی بدل جاتی ہے۔ بہت کم لوگ اپنی گزری زندگی کو یاد رکھ پاتے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی بہت کم لوگ ہی یاد رکھ پاتے ہیں جو مشکل کی گھڑی میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ آپ ایک کامل و مکمل انسان کو پاکر محبت کرنا نہیں سیکھ سکتے، بلکہ ایک نامکمل انسان کو مکمل دیکھنا سیکھ کر آپ محبت کرنا سیکھ جائیں گے۔
لیکن شاید یہ قاعدہ صرف انسان کی انسان سے محبت تک محدود نہیں بلکہ یہ قاعدہ ایک وطن سے محبت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگست کا مہینہ جاری ہے، منچلے گاڑیوں، موٹر سائیکلوں پر سبز پرچم لہرائے ایک وحشیانہ انداز سے گشت کریں گے جس پر حب وطن کی ملما سازی ہو گی۔ 14 اگست شروع ہوتے ہی اس وطن کی محبت میں غوطہ زن افراد کا ایک ہجوم نظر آئے گا۔ جو ایک انوکھے انداز سے اظہار محبت کرے گا۔ آتش بازی سے آسمان کا رنگ بدل جائے گا۔ بیمارو بزرگ کی نیند حرام ہو جائے گی، بچے خوف ہو ہراس میں مبتلا ہوں گے۔
اگر کوئی معصوم جان الفاظ کا استعمال جانتی ہے تو وہ بھی اپنوں سے سوال کرے گی یہ کیا ماجرا ہے۔ کیوں لوگ ہمیں ڈرا رہے ہیں۔ اور پھر یہ سلسلہ ختم ہوگا محبت خاک میں مل کر۔ لیکن جب بات عملی محبت کی آتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں لوگ اپنے وطن سے کوچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسے ملک کی طرف ہجرت کرنا اور اس کا شہری بننے کو پسند کرتے ہیں جس کے متعلق وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ ملک بھی ہمیشہ ایسا ہی خوشحال نہیں تھا۔ اس پر بھی کڑے وقت گزرے ہیں، لوگوں نے ہمت سے کام لیا تو آج ان ممالک کا نام دنیا پر راج کر رہا ہے۔
ہمارے ملک کانام دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح راج کیوں نہیں کر پا رہا؟ اگرچہ اس میں اور بھی بہت سے عناصر کارفر ما ہیں لیکن وہ لوگ جنہیں عام طور پر معاشرہ کامیاب تصور کرتا ہے ان کا اس میں بڑا کردار ہے۔ ہمارے ملک کی کتنی ہی ایسی ممتاز ، عہدے دار شخصیات ہیں جنہیں ہمارے ملک نے امتیازی شان سے نوازا ہے۔جب ان کی مدت پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے تو وہ کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟ کیا عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد ملک سے محبت ، اور اس کی ضرورت ختم ہوگئی؟ کیا اب اس ملک کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں؟ کچھ ایسی ہی صورت حال سیاست دانوں کی بھی ہے۔ جو الیکشن میں منتخب نہ ہو سکے، یا منتخب ہو کر” کوئی چن چڑھا لیوے”وہ بھی نو دو گیارہ ہو جاتا ہے۔ اس بات کے پیش نظر فیض احمد فیض کے اشعار میں کچھ تبدیلی کرنا پڑی کہ:
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ وطن جا کر رہے
کہ جسے بھی وطن کی طرف سےہو کچھ عطا وہ اس عطیہ کو بغل میں دبا کے چلے
پھر ایسے لوگ اگست کے مہینے میں ہمیں حب الوطنی کا درس دیں گے۔ ہمیں اپنے ان قیمتی نصائح سے نوازیں گے جن کی ان کے سامنے ایک ٹکہ قیمت نہیں۔ یہ وہی لوگ تھے جو اندھے پن کا شکار تھے، نہ وہ کچھ دیکھ سکتے تھے نہ ہی انہیں کوئی دیکھ سکتا تھا۔ وطن نے ان کی پرورش کی، انہیں آنکھیں عطا کی، انہیں چمکتا ستارہ بنایا۔ آج اگر وہ دیکھ رہے ہیں یا دنیا انہیں دیکھ، سن رہی ہے تو یہ سب اسی وطن کی مرہون منت ہے۔ جب وہ اتنے عروج پر پہنچے تو وطن کی دھرتی ان کی امان گاہ تک نہ بن سکی۔ وہ جب اپنے عمل سے وطن سے بے رخی اختیار کرنے لگے، اور زبان حال سے وطن کی عطاؤں کے انکاری بنے تو تب وطن کی ان کے لئے آخری صدا یہی تھی” اور کچھ نہیں بس میری آنکھوں کا خیال رکھنا”۔