کراچی بلاشبہ دنیا کا وہ شہر ہے جسے غریبوں کی ماں کہا جاسکتا ہے ۔اس شہر نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کون کہاں سے آیا ہے ۔اس نے صرف ایک ماں کی طرح سب کو اپنی آغوش میں لیا ہے ۔گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے لے کر تھر کے ریگستان تک جس نے بھی اس شہر کو جائے اماں بنایااس شہر اس کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے ۔کہتے ہیں کہ کراچی میں کبھی ٹرام بھی چلتی تھی ۔یہاں کے شہری ڈبل ڈیکر بسوں کی سواری سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے اور سرکلر ریلوے کا ایک نظام بھی موجود تھا ۔حکمرانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے پہلے شہری ٹرام سے محروم ہوئے ،ڈبل ڈیکر بسوں کا سفر کھٹارا بسوں پر ختم ہوا اور سرکلر ریلوے کا نظام کرپشن کے بوجھ تلے دب گیا ۔
کہتے ہیں کہ جب اس شہر کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم تھی اس وقت یہاں بسوں کے لاتعداد روٹس تھے اور اب جبکہ یہ یہاں کے نفوس دو کروڑ سے بھی زائد ہوچکے ہیں تو گنتی کی چند بسیں ان کا بوجھ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں ۔سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں ایئرکنڈیشنڈ گرین بسیں متعارف کرائی گئیں ،جوشہریوں کے لیے ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح تھیں ۔یہ بسیں شہر کی سڑکوں پر رواں دواں تھیں کہ نعمت اللہ خان کا دور نظامت اختتام پذیر ہوگیا اور شہر کے وارثوں کے ہاتھوں میں مقامی حکومت آگئی ۔بر صغیر کو تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے لوٹا تھا لیکن شہر قائد کی بدقسمتی سے یہ رہی کہ یہاں کے نام نہاد وارثوں نے اس بے دردی سے شہر کو لوٹا اور ظلم کیا کہ چنگیز سے لے کر ہلاکو تک عالم ارواح میں دہائیاں دینے لگے کہ خدا کے لیے ہمیں ظالم کہنا چھوڑ دو ۔
پولیس گردی تو ویسے پورے ملک میں ہی مشہور ہے لیکن کراچی اس کا خاص نشانہ ہے ۔یہاں کے پولیس اہلکار ایک خاص ہی رعب و دبدبے کے مالک ہیں ۔کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا خمیر دنیا کے پہلے جلاد سے نکلا ہے ۔یہ شہریوں کو بلاوجہ پار لگاکر ترقیاں بھی پاتے ہیں ۔لوگوں کو بلاجواز گرفتار کرکے ہزاروں روپے رشوت وصول کی جاتی ہے ۔سڑکوں پر ناکے لگائے جاتے ہیں ،جہاں اہل کراچی کی جیبیں خالی کرائی جاتی ہیں ۔کراچی پولیس کا خاصہ یہ ہے کہ جس علاقے میں جتنے ناکے ہوں گے وہاں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں اتنی ہی زیادہ ہوں گی ۔بھتہ خوری سے لے کر اغوا برائے تاوان تک کوئی ایسا جرم نہیں ہے جس میں ہماری پولیس کے اہلکار سہولت کار نہیں ہیں ۔پولیس والوں کے پاس تشدد کو تو ایسے نت نئے طریقہ کار ہیں کہ ظلم بھی شرماجاتا ہے کہ اور دہائی دیتا ہے کہ بس کروغریب کی جان لوگے کیا ۔پولیس تشدد میں اس بید کا زمانہ لد گیا ،جس پر لکھا ہوتا تھا کہ آجا مورے بالما تیرا انتظارہے اب جس طرح جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے ،اسی طرح تشدد کا رواج بھی بدل گیا ہے ۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ پٹرول کے انجکشن سے لے کر چیرا تک ہماری پولیس کی ایجاد ہے ۔
حالیہ مون سون کی بارشوں نے کراچی میں تبدیلی کے دعویداروں کا اصل چہرا بے نقاب کردیا ہے ۔چند گھنٹوں کی برسات نے شہر کو دریا میں تبدیل کردیا ۔لوگوں کے گھروں میں پانی آگیا ۔نجانے کتنی بہنوں کا جہیز کا سامان اس بارش کے پانی میں بہہ گیا ۔یہ بارش کا پانی نجانے کتنے لوگوں کے ارمانوں کو اپنے ساتھ لے کر چلا گیا ہے ۔کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں ،جن کا مقدمہ آپ کسی کے خلاف درج نہیں کراسکتے ہیں ۔کراچی میں بارشوں سے ہونے والی تباہی بھی اس کی ایک مثال ہے ۔یہاں کچھ لیڈر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ‘جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو ز یادہ پانی آتا ہے ‘ان کو کوئی یہ بھی تو بتائے کہ دنیا میں جب بارش آتا ہے تو واقعی پانی تو آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی بھی آتا ہے لیکن اس پانی کی نکاسی کے لیے خصوصی انتظامات بھی کیے جاتے ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک میں کئی کئی روز تک ہونے والی بارشوں کے بعد پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ یہاں اتنی زیادہ بارشیں ہوئی ہیں اور ایک بدقسمت کراچی کے شہری ہیں جو چند گھنٹوں کے بارش سے اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں ۔پیپلزپارٹی سندھ میں گزشتہ 12سال سے برسراقتدار ہے ۔
روٹی ،کپڑا اور مکان کی دعویدار جماعت اگر بارش کی نکاسی کا انتظام بھی نہ کرسکے تو اس سے کسی اور چیز کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے ۔شہر کی ایک اور وارث جماعت ایم کیو ایم پاکستان ہے ۔اس جماعت کے لیے کراچی کے شہریوں نے اپنے دل کے دروازے ہمیشہ کھول کر رکھے ہیں ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی میں برسراقتدار جماعت کے میئر کے لیے بھی بارش کے پانی کی نکاسی کسی راکٹ سائنس سے کم نہیں ہے ۔وسیم اختر صاحب کے پاس ہر سوال کا جواب صرف ایک ہے اور یہ کہ میرے پاس فنڈز نہیں ہے ۔کراچی کے شہری ان سے سوال پوچھتے ہیں کہ اگر آپ اتنے ہی بے اختیار ہیں کہ شہر کی صفائی تک نہ کرواسکیں تو اتنے سالوں سے کرسی چمٹے ہوئے کیوں بیٹھے ہیں ۔آپ کراچی کے شہریوں کے برابرکے مجرم ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ انتخابات میں کراچی کے عوام نے بھرپورر مینڈیٹ سے نوازا لیکن تبدیلی کے نام ان کے ساتھ جو دھوکا ہوا ہے وہ ساری زندگی نہیں بھولیں گے ۔بارشوں کے دوران پی ٹی آئی کا ایک ایم این اے یا ایم پی اے عوام کے درمیان نظر نہیں آیا ۔ایسا لگتا ہے کہ ان تمام سیاسی جماعتوں نے عوام کو لاوارث چھوڑ دیا ہے ۔
مشکل حالات میں شہریوں کی داد رسی کے لیے صرف فلاحی تنظیمیں آگے آتی ہیں ۔کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی صورت حال میں الخدمت فاؤنڈیشن ،جے ڈی سی ،سیلانی ویلفیئر ،چھیپا ،ایدھی اور کریڈو ویلفیئر ایسوس ایشن سمیت دیگر فلاحی تنظیمیں شہریوں کے دکھوںکا درماں بنیں اور اس بارش کے دوران بھی جہاں حکومت تو کہیں نظر نہیں آئی وہاں یہی فلاحی تنظیمیں عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے سڑکوں پر موجود تھیں ۔ان تنظیموں کے رضا کار اگر بارش کے دوران متحرک نہیں ہوتے تو نجانے شہر کا کیا حال ہوتا ۔کراچی کے شہری اب سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں ۔اب تو انہوںنے یہ بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ اگریہ جماعتیں کچھ نہیں کرسکتیں تو شہر میں فلاحی تنظیموں کے حوالے کردیا جائے ۔یہ کراچی سے منتخب تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔بلدیاتی انتخابات زیادہ دور نہیں ہیں ۔اگر ان سیاسی جماعتوں نے اپنا چلن نہ بدلا اور شہر کی حالت زار میں تبدیلی لانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کوشش نہیں کی تو آنے والوں دنوں میں ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں بچے گا ۔