مغربی دنیا میں عورت کے مقام  کی تذلیل (دوسرا حصّہ)۔

ٹاپ سانٹے (santé) میگزین کی طرف سے 2010 میں طرز ِ زندگی کے حوالے سے کئے گئے ایک سروے نے 21ویں صدی کی “سپر وومین ” کی بابت میڈیا کے پروپیگینڈہ میں سے ہوا نکال دی جو ماں کے فرائض ادا کرنے اور خاندانی زندگی سے متعلق  ذمہ داری ادا کرنے کی زبر دست کوشش کرتی ہے ۔اور یوں ما ں کی حیثیت سے خاندانی زندگی کے حوالے سے کامیاب کیرئیر  کی خواہاں ہے جن 5000 خواتین سے رائے مانگی گئی ان میں سے 75 فیصد نے شکایت کی کہ ان سے جو کام لیا جاتا ہے اس کا پورا معاوضہ نہیں ملتا  ۔70 فیصد نے بتایا کہ ان کی بساط سے زیادہ کام لیا جاتا ہے ۔77فیصد نے  اس یقین کا اظہار کیا کہ انہیں کام کے باعث جو تھکن ہو جاتی ہے اس سے ان کی صحت بہت خراب ہوجاتی ہے ۔79 فیصد نے بتایا کہ وی کام کی دنیا کے بارے میں جس خوش فہمی اور فریب نظر کا شکار تھیں ۔ان سے نکل آئی ہیں۔

چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آف پرسنل اینڈ ڈویلپمنٹ (سی آئی پی ڈی) کی ایک رپورٹ کے مطابق ، ایک چوتھائی ملازمین کا خیال ہے کہ ان کی کمپنی کام کی جگہ پر دھونس اور ہراساں کرنے کی طرف آنکھیں بند کر رہی ہے۔اگرچہ پچھلے تین سالوں میں پندرہ فیصد لوگوں نے دھونس کا سامنا کیا ہے ، ان میں سے آدھے سے زیادہ افراد نے فرم کو اس کی اطلاع نہیں دی۔شمالی آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی 43 سالہ ولیہمینہ مورگن کالغان نے آٹھ سال قبل اپنے کتے ہنری سے شادی کی تھی۔ہم سب جانتے ہیں کہ ایک کتا انسان کا سب سے اچھا دوست ہے ، اور کالغان نے کچھ مشکل وقتوں سے گزرنے کے لئے ہنری کی وفاداری کا سہارا لیا۔

 ایک ایسی عورت جس نے اپنے  معاشرے اور مردون کے رویئے سے تنگ آکر کتے سے شادی کی ہے  وہ کہتی ہے کہ لوگوں کے سوچنے کے باوجود وہ پاگل ہے ۔ وہ  یعنی کتا اس کے لئے کامل ہے۔ کیونکہ مرد بھی ہم عورتوں سے ایک کتے جیسا ہی رویہ کرتے ہیں۔ اس نے کہا۔ “میں نے ایک کمپنی میں اپنی ملازمت کھو دی ، اس لئے مجبور کیا گیا کہ وہ فری لانس ایمبولمر بن جائے یا غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاموں کے لئے خود کو تیار کرے۔ اس نے کہا ، “جب ہم نے 2009 میں شادی کی تھی تب سے معاملات میں کچھ  سکون میں ہوں ۔ یہ ایک غیر معمولی اتحاد ہے ، لیکن کالغان کا خیال ہے کہ “کتے مردوں سے بہتر ہیں” ، اور صاف گوئی کے ساتھ ، وہ شاید اس نظریہ کو بانٹنے والی واحد نہیں ہے۔  اب اندازہ لگائیں کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں عورت مرد سے تنگ آ کر جانور کے ساتھ رہنا پسند کرے وہاں کیا حشر ہوتا ہو گا۔

یورپ میں عورت کے خلاف تشدد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔یورپی شماریاتی آفس “یورو اسٹیٹ” کی سال 2017 کے اعداد و شمار سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک  میں سے فرانس، جرمنی اور برطانیہ میں عورتوں کے قتل کی شرح سب سے بلند رہی اور ان میں بھی فرانس  پہلے نمبر پر رہا۔ فرانس میں ایک سال کے دوران 601 عورتوں کو قتل کر دیا گیا اور برطانیہ میں ہر تین میں سے ایک عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جرمنی میں 380، برطانیہ میں 227 اور اسپین میں 113 عورتیں مردوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔اٹلی میں سال 2018 کے دوران قتل ہونے والی عورتوں کی تعداد 142 رہی۔ترکی کی قومی اسمبلی کے عورت مرد مساوی مواقع کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین ممالک میں 15 سال سے بڑی ہر 3 عورتوں میں سے ایک، مردوں کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد  کا سامنا کر رہی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ذریعہ شائع ہونے والے عالمی اندازوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں 3 میں سے 1 (35٪) خواتین نے اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی  پارٹنر تشدد یا غیر ساتھی جنسی تشدد کا تجربہ کیا ہے۔متاثرین سے موصولہ اطلاعات پر مبنی آبادی کی سطح کے سروے مباشرت پارٹنر پر تشدد اور جنسی تشدد کے پھیلاؤ کا سب سے درست تخمینہ پیش کرتے ہیں۔ لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن اور ساؤتھ افریقہ میڈیکل ریسرچ کونسل کے ساتھ ڈبلیو ایچ او کے 2013 کے تجزیے کے ایک اجلاس میں ، 80 سے زائد ممالک کے موجودہ اعداد و شمار کا استعمال کیا گیا اور پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر میں ، 3 میں سے 1 ، یا 35٪ خواتین نے جسمانی اور جنسی تشدد کو برداشت کیا ہے۔

خواتین پر تشدد کے عالمی اور علاقائی تخمینے کی اگر بات کی جائے تو رشتے میں رہنے والی تمام خواتین میں سے تقریبا ایک تہائی (30٪) نے اپنے قریبی ساتھی کے ذریعہ جسمانی  یا جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔ درمیانی شراکت داروں کے درمیان ہونے والے تشدد کے بڑے تخمینے میں زیادہ آمدنی والے ممالک میں 23.2٪ اور WHO مغربی بحر الکاہل کے خطے میں 24.6٪ سے WHO مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں 37٪ ، اور WHO جنوب مشرقی ایشیاء کے خطے میں 37.7 فیصد ہیں۔عالمی سطح پر خواتین کے قتل عام کا 38٪ قریبی ساتھیوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ مباشرت پارٹنر پر تشدد کے علاوہ ، عالمی سطح پر 7٪ عورتیں شریک کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ جنسی زیادتی کا نشانہ بناتی ہیں  حالانکہ غیر شریک پارٹنر جنسی تشدد کے اعداد و شمار زیادہ محدود ہیں۔  ساتھی اور جنسی تشدد زیادہ تر مردوں کے ذریعہ خواتین کے خلاف ہوتے ہیں۔

National Sexual Violence Resource Center (NSVRC)   کی ماضی میں چھپنے والی رپورٹ میں United States  میں عورتوں کے ساتھ بد سلوکی اور ان کی تذلیل کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہر ایک میں پانچ خواتین میں سے ایک اور 71 میں ایک مرد ان کی زندگی کے کسی نہ کسی وقت عصمت دری کرتے ہیں۔امریکہ میں ، تین میں سے ایک عورت اور چھ میں سے ایک مرد نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح سے جنسی تشدد کا سامنا کیا۔عصمت ریزی کا شکار 51.1٪ خواتین کا قریبی ساتھی اور 40.8 فیصد کسی واقف کار کے ذریعہ زیادتی کا نشانہ بنے52.4٪ مرد متاثرین کی شناخت کسی جاننے والے نے اور 15.1٪ ایک اجنبی  کے ذریعہ کی گئی۔

تقریبا نصف (49.5٪) نسلی خواتین اور 45 فیصد سے زائد امریکی ہندوستانی / الاسکا آبائی خواتین کو ان کی زندگی میں کسی نہ کسی طرح سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔عصمت دری اور جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والوں میں 91٪ خواتین ہیں ۔عصمت دری کے 10 میں سے آٹھ میں ، متاثرہ شخص مجرم کو جانتا تھا۔آٹھ فیصد عصمت ریزی اس وقت ہوتی ہے جب متاثرہ ملازمت پر ہوتیں ہیں۔

مزید برآں ، سیو دی چلڈرن نے لڑکیوں کے لئے پانچ اشارے پر مبنی بہترین اور بدترین مقامات  کی ایک رپورٹ جاری کی ، جس میں بچوں کی شادی اور نوعمر عمر کی شرح پیدائش اور ناجائز شامل ہیں ، جہاں مبینہ طور پر٪ 76 فیصد نوجوان عورتوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کی گئی تھی ، اور ایک پانچ میں نو عمر لڑکیوں نے ایک سال اوسطا اوسطا جنم لیا ، 144 ممالک کی فہرست میں آخری مقام حاصل کیا۔

یونیسیف کے ایک پروفائل کے مطابق ، سوڈان میں 15 سے 49 سال کی عمر میں 34 فیصد خواتین کا خیال ہے کہ ایک شوہر / ساتھی کسی خاص حالت میں اپنی بیوی کو مارنا یا مارنا جائز ہے ، اور 20 سے 24 سال کی عمر میں 34 فیصد خواتین شادی شدہ تھیں یا یونین جب وہ 18 سال کے تھے۔

2010 کے اقوام متحدہ کے ایک حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ عراقی خواتین میں سے ایک میں گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ، اور وزارت منصوبہ بندی کے ایک 2012 کے مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ کم از کم 36٪ عراقی خواتین نے اپنے شوہروں کے ہاتھوں کسی نہ کسی طرح کی زیادتی کا سامنا کیا ہے۔

یہ تما م رپورٹس کام کی جگہ کی جانے والی  ہراسمینٹ کی ہیں۔اس سروے سے ثابت ہوا کہ مغربی دنیا میں 90 فیصد خواتین اپنے گھریلو کام خود کرتی ہیں۔اور بچوں اور شوہر اور گھر کے دیگر افراد کی بھی ذمہ داری اٹھاتی ہیں۔اس کے باوجود کہ جب عورت خود کماتی ہو اور اپنی ذمہ داری  بخوبی  نبھاتی ہو کسی قسم کی سماجی سہولت نہ ملنے کے بجائے جنسی تشدد کا شکار  اور بد ترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ تمام حالات زندگی کو ختم کرنے اور ذہن کو شل کرنے والے ہیں۔مگر اس وقت مغربی ممالک کی صورت حال اس بارے میں بڑی تشویشناک اور لمحہ فکریہ والی ہے۔

یورپ کی جنسی بے راہ روی کے بارے میں ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں :ہر معاشرے میں شادی سے پہلے ہر مرد اور عورت کو جنسی لحاظ سے پاک دامن رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن مغربی معاشرہ اور کچھ دیگر غیر ترقی یافتہ معاشرے مرد و عورت کو جنسی اختلاط کی اجازت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پولی نیشیا کے سیموئن قبائل میں ہر بالغ مرد اور عورت سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے جنس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ان قبائل میں شادی سے پہلے منگیتر کے ساتھ راتیں گزارنا ان کی روایت اور تمدن کا حصہ ہے۔ اسی طرح کینیا کے ماسی قبائل میں جب ایک لڑکا بالغ ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر تربیتی کیمپوں میں چلا جاتا ہے جہاں وہ جنگی ماہرین سے جنگ اور لوٹ مار کرنے کے طریقے سیکھتا ہے۔ اس دوران نزدیکی گھروں میں رہنے والی جوان لڑکیاں ان کی خدمت گزاری کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ جن سے جنسی تعلق قائم کرنا ان جوانوں کا حق ہوتا ہے۔

اور مغربی تہذیب کے بارے میں مولانا گوہر رحمنؒ لکھتے ہیں جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:اہل یورپ چونکہ اپنی مذہبی اقدار سے دور جا چکے ہیں اس لئے مغربی تہذیب ایک بالغ شخص کو کھلی چھٹی دینے کی قائل ہے۔ کسی قسم کی کوئی بندش یا قید جو اس مرد و عورت کا فاصلہ کرے اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہر طرف جسمانی طور پر لطف اندوزی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔ اخلاقی قدروں کی پامالی اس کا حق آزادی شمار کیا جاتا ہے اور حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر مال کمائے تو یہ اس کا معاشی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ عورت، مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرے تو یہ اس کا تمدنی حق سمجھا جاتا ہے اور مرد و عورت بے راہ روی پر اُتر آئیں تو یہ ان کا جنسی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی اکثریت اپنی کسی لذت اور خواہش کی تکمیل کے لئے ایک ناجائز کام کو جائز کرانا چاہے تو یہ حق جمہوریت کی رو سے ممکن ہے۔

بنات ِ امّت! یہ حال ہے اکیسویں صدی کے تعلیم یافتہ لوگوں کا  جو آزادی نسواں کے پر جوش حامی ہیں ۔جو تحریکِ نسواں کے حامی ہیں ۔یہ آزادی نسواں کا نعرہ صرف  مسلم خواتین کے لئے ہی کیوں ہے ۔یہ تما م تحریکیں مسلم ممالک ہی میں فعال کیوں؟صرف اسلام دشمنی  میں اندھے یہودو نصاری ٰ   آزادی نسواں کے نام پر بربادی نسواں کے لئے کوشاں اپنی حرص و ہوس کی تسکین کے لئے مصروف ِ عمل ہیں۔

محمد مقصود اپنے مقالے ” عورت اور یورپ ” میں لکھتے ہیں :”کمیونسٹوں نے جہاں امت مسلمہ کو کمزورکرنے کے لئے دوسرے بہت سے ہتھکنڈے اختیار کئے وہاں وہ اسلامی معاشرت  کے اس مرکزی پہلو پر بھی حملہ آور ہوئے ۔سقوطِ بخارا  کے فورا بعد یہاں کی عورتوں میں بھر پور طریقے سے جدت پسندی اور آزادی نسوان کی ترویج اور اشاعت کا کام کیا گیا۔کمیونسٹوں نے عورت کو اسلامی تیذیب و اقدار سے بیگانہ کر کر انہیں گھر کی چار دیواری سے باہر کھینچ لانے کے لئے برے محتاط اور بظاہر بے ضرر طریقے اختیار کئے۔ان سادی لوح خواتین کو ایک طرف تو اس خوش فہمی میں مبتلا کیا گیا کہ ہمیں  تمہارے مذہب و تہذیب ،روایات و رسوم سے کوئی سرو کار نہیں ہم تو صرف عورتوں  کی اقتصاد و بہبود سے دلچسپی رکھتے ہیں دوسری طرف انہیں جدید معاشی وسائل فراہم کر کے کمیونزم کے جال میں پھنسا یا گیا ۔اس سلسلہ میں روسی  کمیونسٹ عورتوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔”

مشہور مصری خاتون  حقوق ِ نسواں کی داعی  ڈاکٹر نول السعد اوی خلیج کی جنگ کے عورتوں اور بچوں کے اثرات  کے عنوان کے تحت لکھتی ہیں:”جنگ کی بنیادی وجہ دنیا پر ڈالر کے تسلط کو مضبوط کرنا ہے  اور ہماری کرنسی کی قدر  کو کم کرنا ہے ،جو کہ اب تقریباہو چکی ہے ۔عالمی بینک کی عائد شرائط کی وجہ سے غریب اوقام اور عورتیں زیادہ مصیبتوںکا شکار ہوئیں۔جب بھی بے روز گاری رونما ہوتی عورتوں کو روزگار سے پہلے نکالا جاتا  ہے۔اب وہ کہتے ہیں عورتوں کو گھروں میں واپس جانا اور ملازمت نہیں کرنا چاہیے،ہمارا قرض بڑھ رہا ہے ۔اب مصر کے لئے قرضوں کا سود قرضوں سے زیادہ ہو گیا ہے اور پس یم قرضوں میں ڈوب رہے ہیں۔

یہ ہے تیسری دنیا کی نام نہاد  امریکی ترقی کا شیطانی چکر ۔یہ  جھوٹی ترقی ہے یہ صرف نمودو نمائش ہے۔یہاں امریکہ میں اسے Loan Sharking کہا جاتا ہے۔مصر ایک  زرخیز ملک ہے ۔ہمارے ہاں وادی نیل ہے ۔مگر ہم کو مجبور کیا گیا کہ وہ پیدا کریں جو ہم کھاتے نہیں ہیں اور جو ہم کھاتے ہیں اسے پیدا نہ کریں۔یہ ہے استعمارات ۔یہ ہے نو آبادیت ۔وہ یہ سب کچھ ترقی ،جمہوریت ،انسانی حقوق اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کے ناپ پر کرتے ہیں۔ آپ نے جارج بش کو سنا ہے نا!اس نے بتایا کہ ایک امریکی صحافی مجھے مصر میں ملا ۔اس نے کہا ” آپ 40 برس  سے عرب میں عورتوں کی آزادی کے لئے کام کر رہی ہیں۔اب آپ یقینا خوش ہوں گی کہ  جارج بش نے کویت کو شیخ الصباح کو کہا ہے کہ وہ کویتی عورتوں کو ووٹ کا حق دے۔” میں نے کہا ،جارج بش کویتی عورتوں کو ووٹ کا حق دلوائے گا ؟ یہ تو مذاق ہے ۔ایک غیر ملکی قابض  ،ایک غیر ملکی  حملہ آور عورتوں کو کیسی جمہوریت دے سکتا ہے؟یہ تو نا ممکن ہے ۔یہ عورتوں کو دھوکہ دینے والا بڑا جھوٹ ہے۔

نو  آبادیاتی طاقتیں کہتی ہیں کہ عورتوں کو ووٹ کا حق دلوانے ،ہمیں ترقی دینے ،قرض دینے ۔کچھ فنڈز دینے آرہے ہیں۔ لیکن یہ سب مالیاتی ادارے ،یہ نام نہاد عالمی بینک اور بین الاقوامی  مالیاتی فنڈز نو آبادیاتی ادارے ہیں۔وہ تیسری دنیا کو

دھوکہ دیتے ہیں لیکن عوام کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ،ہماری حکومتیں اور اتحادی فائدہ اٹھاتے ہیں عوام نہیں۔صبح سمر قند  کا مصنف جوشا کیونٹیز Josha Kuntiz  ایک سرخ درندے کے حوالے سے لکھتا ہے۔

” (اے مسلمانو) ہم  نے تم سے مویشی توہتھیا لیے اب تیار ہو جاؤ ہم تمہاری بہو۔بیٹیوں کا بھی ایک مجموعہ بنانے والے ہیں ہم انہیں اپنے ساتھ سلائیں گے اور اس صورت مین ہم ایک دوسرے سے اچھی طرح گھل مل جائیں گے۔”اس سے اندازہ  لگائیں کہ جس معاشرے اور تہذیب سے ہم متاثر ہیں وہ کس قدر بھیانک ارادے رکھتے ہیں  بنات ِ امت کے لئے۔

جواب چھوڑ دیں