مون سون کا موسم تھا. میں دنیا بھر میں اور خصوصاً پاکستان میں ہر جگہ جا رہی تھی لیکن کراچی کی باری اب تک نہ آئی تھی۔ مگر پھر ۹ اگست ۲۰١۹ کی شام سے وہاں بھی خوبصورت موسم، گرجتے بادلوں اور چمکتی بجلی کا راج تھا. بچّہ بچّہ یہ نعرے لگاتا نظر آ رہا تھا؛.. “اللہ میاں پانی دیں… سو برس کی نانی دیں” ۔تمام بچّے بڑے اس شام موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور میں آسمان سے منظر دیکھ رہی تھی. کراچی والوں کو میری آمد کی خوشخبری ملی اور مجھے اللہ کی طرف سے برسنے کا حکم… بس پھر کیا تھا… اسکول میں موجود طلباء، دفتر میں موجود مرد حضرات اور باورچی خانے میں کام کرتی خواتین… سب ہی کے چہرے دمک اٹھے. وقت کے ساتھ میں نے اپنی رفتار بڑھا دی.
بجلی تو پہلے ہی قطرے کے ساتھ غائب ہو گئی تھی اور اب تو میرے برسنے پر انجانے زمینی کیڑے بھی باہر آ گئے۔ میں کراچی میں اس قدر تیز رفتاری سے کئ برس بعد برسی تھی. بجلی، کیڑے یا میری رفتار… کسی بھی چیز کی پرواہ کیئے بغیر کراچی والوں نے مجھ سے خوب لطف اٹھایا. اکثر دادیاں اور نانیاں “رحمت کی بارش” کی دعائیں کر رہی تھیں. لوگ گھومنے کے لیئے گھروں سے باہر بھی گئے. سموسے پکوڑے اور چائے کافی کے ادوار چلے اور دوستوں میں دعوتیں ہوئیں. البتّہ میری وجہ سے کئی پروگرامات بھی معطّل ہوئے کیونکہ میری آمد کے دوران کراچی کی مخدوش سڑکوں پر سفر کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔
ارے میری یہ باتیں سن کر آپ پریشان تو نہیں ہو رہے کراچی والو… ؟؟ میں ہر گز آپ کو مزے لینے سے نہیں روک رہی بلکہ آپ ضرور مجھ سے لطف اٹھایا کیجیئے. بس… اس بات کا خیال رکھا کریں کہ جب میں برسنا شروع کروں تو آپ اپنی گاڑیوں کی رفتار کم کر لیں. بچّے گیلے فرش پر نہ بھاگیں اور بجلی کے کھمبوں سے بھی فاصلہ اختیار کریں اور خوش رہیں!!!