یہ سال 2013 تھا۔اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں “مفت قلیل مدتی صحافتی کورس” کروایا جارہا تھا۔ اس میں، میں بھی بحیثیت طالبہ علم شامل تھی۔انھی دنوں میں ایک دن ایک صاحب اردو زبان کے حوالے سے ہماری کلاس لینے آتے ہیں۔آتے ہی گویا ہوتے ہیں بھئ میں کوئ لیکچر ویکچر دینے نہیں آیا، لیکچر مجھے دینا بھی نہیں آتااور نہ ہی میں کوئ زبان کا ماہر ہوں لغت دیکھتا ہوں آپ بھی دیکھ لیجیے، میں بھی اسی سے آپ کو بتاتا ہوں۔یہ جملے بڑے ہی شگفتہ انداز میں ان کی زبان سے ادا ہوئے تھے اور ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ ہمارے استاد محترم بڑے ہی منکسرالمزاج ہیں۔
گفتگو ذرا آگے بڑھی،کہنے لگے دیکھیے آپ اتنی ساری ہیں مگر پھر بھی خواتین ہیں۔سب مسکرا دیے۔جو بھی ان کے سوال کا درست جواب دیتا۔بڑی ہی محبت سے کہتے کہ یہ بچی ہوشیار لگتی ہے۔
زبان کی اصلاح کے حوالے سے بات ہونے لگی تو ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ بھئ ویسے جب ہم گھر میں بچوں کی اصلاح کرتے ہیں تو بیگم کہتی ہیں کیا آپ زبان کے داروغہ لگے ہیں۔اسی طرح جب جب بھی استاد محترم کو سننے کا موقع ملا وہی عاجزی وہی انکساری اور شگفتگی دیکھنے کو ملی جو پہلی بار دیکھی تھی۔
ہم نے شروع میں گفتگو کا لفظ اسی لیے استعمال کیا کہ وہ کہتے تھے یہ لیکچر نہیں ہے بس گفتگو ہے اور جو کچھ بھی ان سے سیکھا تو بس یہ ہی جانا کہ وہ کسر نفسی سے کام لیتے ہیں۔
انھوں نے بلاوجہ کہیں بھی پندونصائح کا استعمال نہیں کیا،نہ ہی گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے کوئ مقفی ومسجع تمہید باندھی حالانکہ وہ زبان اردو کے درست استعمال اور برتنے کے ماہر تھے۔ اتفاق ہے کہ میں آج کل ان دنوں کو بہت یاد کررہی ہوں اور میں دل ہی دل میں وہاں پڑھانے والے اساتذہ کرام کا شکریہ بھی ادا کرتی ہوں۔
سچ تو یہ ہے کہ استاد محترم اطہر علی ہاشمی صاحب اپنے وقت کی نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ اور ایک بہت بڑا خلا ان کے جانے سے ہماری زندگیوں میں واقع ہوگیا ہے۔
چلا گیاوہ جو ہمیں ہوشیار کرتا تھا”کہ خبر لیجیے زبان بگڑی” آہ… چلا گیا ہمارا محسن جو ہمیں اردو زبان کو صحیح طور پر برتنے کی خبریں دیتا تھا۔
استاد محترم آپ کی عظمت کو سلام…..
؎ ہر ایک لفظ کو لہجے کو غور سے سن لو
ہمارے بعد زباں کی سند نہیں ہوگی