کرونا کی بقرہ عید

عید ہمارے خوبصورت تہواروں میں سے ایک تہوار ہے۔۔لیکن کرونا میں عید۔۔۔آج کل کوئ بھی ایسا نہیں جو کرونا سے واقف نہ ہو .

کچھ اسے کشمیر کے لیے آواز نہ اٹھانے کی سزا تو کچھ معشیت کمزور کرنے کی چال اور کچھ عذابِ الہیکہتے ہیں۔گزشتہ سالوں میں اِن دنوں حج کا، پھر قربانی، پھر عیدالضحی کا جوش و خروش ہوتا تھا اور کڑوڑوں لوگوں کا حج پر جانا اور پھر تکبیرات کی کثرت ایک دلکش اور پر جوش جذبہ ہوتا تھا کہ کہیں اور کسی مذہب میں بھی ایسی اجتماعیت نہیں ہوتی۔۔۔

لیکن اب کرونا کی وجہ سے حج اور مسلمانوں کا اللہ کے گھر پر نہ جانا ایک طرح سے اللہ کی ناراضگی کا اظہار ہے۔۔۔۔البتہ کرونا سے بہت بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔۔لیکن ان سب کے باوجود میں نے ایک بات کا تجزیہ کیا وہ یہ ہے کہ آج لاک ڈاؤن کے باعث مصروف سے مصروف ترین انسان بھی فارغ ہے۔یہ فیملیز کے لیے بہت ہی خوبصورت وقت ہے کہ آپ اپنوں کے ساتھ ایک اچھا وقت گزارے اور آپ اپنے رب کے قریب ہو سکے عبادت میں وقت گزارے اللہ سے تعلق کو مضبوط کریں۔ٹھیک ہے جو وبا پھیلی ہے اس سے نقصان بہت ہو رہا لیکن کچھ چیزیں ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہوتی ہیں۔

آپ کی زندگی میں ایک اختیار کادائرہ ہے۔

ایک “دائرہ” اختیار سے باہر کا دائرہ ہے وہ ہے دعا اور صبر کا دائراہ وہاں پر آپ کچھ بدل نہیں سکتے لیکن دو اختیار ہیں آپ کے پاس *دعا اور صبر* ۔

جیسے کہ ایک شخص ہے موٹروے پر جا رہا ہے اسے لاہور بہت تیزی سے پہنچنا ہے کسی کی گاڑی خراب نظر آئی ہے تو وہ دعا کرتا ہے اے اللہ! ان کے لیے آسانی کر یہ سرکل سے باہر ہے۔اسی طرح وہی شخص جا رہا ہے اگر وہ دیر سے بھی پہنچ جاتا ہے تو خیر ہے رستہ میں فیملی خوار ہو رہی گاڑی روک دی مدد کر دی یہاں پر وہ دائرہ اختیارمیں چلے گیا۔جہاں پر آپ کچھ نہیں کر سکتے وہاں آپ اپنے رب کے سپرد کر دیں۔۔

اکثر لوگ کرونا کو لے کر ڈپریشن میں چلے گئے۔کیوں؟

موت کا اتنا خوف؟ موت صرف کرونا سے تھوڑی آنی ہے اس سے تو کوئی بچ نہیں سکتا نہ آپ نہ میں۔میرا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن،کرونا، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی عید ہمیں پرجوش طریقہ سے خوش ہو کر منانی چاہیے۔ایک قول ہے

*مومن ہمیشہ ماضی کے غم اور مستقبل کے خوف سے آذاد ہوتا ہے*

تو کرونا کے خوف سے آذاد ہو کر عید منائیے لیکن جو آپ کہ دائراہ اختیار میں ہے وہ کرے احتیاطی تدابیر ہو گئی خود کو بدلیں اپنے اعمال بہتر کریں، اللہ کی طرف رجوع کریں اگر یہ عذابِ الہی ہے تو ٹل جائے اگر آزمائش ہےتو ہم سرخرو ہو۔

لیکن اپنے حصہ کا کام کر کے باقی اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے جیسے اگر کوئی مریض ہے اس کا بہتر سے بہتر علاج کروائے پھر اللہ پر چھوڑ دے شفاء دینے والی وہ ذات ہے

*خدائ عمل میں فکر مندی نہیں ہونی چاہیے*

اس لیے جو آپ کر سکتے ہیں وہ کرے لیکن اپنا یہ تہوار خوشی سے،شکرگزاری اور مطمئین ہو کر گزارے۔۔۔

جواب چھوڑ دیں