ذی الحج کا مہینہ رہتی دنیا تک تمام عالم اسلام کے لیے فخر اور احسان مندی کا مہینہ بنا رہے گا ۔ یہ مہینہ ہمارے جّد اعلیٰ سیدّناابراہیم ؑکی لازوال داستان وفا اور بے مثال عبودیت کی انمٹ کہانی ہے ۔یہ عشق خداوندی کی ایسی روشن مثال ہے جس کی بلندیوں پر رسائ کی سکت کسی بند خدا میں نہیں ۔عراق کے شہر “اوّر” سے تلاش حق میں سرگرداں یہ ماہتاب فلسطین اور مصر میں اپنی زوفشانیا ں بکھیرتا حجاز کی سرزمین تک جا پہنچا ۔۔اور پھر “خلیل اللہ ” اور ” یکسو مسلم ” اس بند مومن نے عبودیت کی ایسی حیرت انگیز مثال پیش کی کہ جس کا تصور بھی محال ہے ۔
اپنے بڑھاپے کی اولاد نوزائدہ شیر خوار بیٹے اور بیوی کو بے آب وگیا وادی میں بیت اللہ شریف کے قریب اللہ کے حکم پر چھوز جانا ۔ یہ اللہ کی ایک بہت بڑی آزمائش تھی جس میں وہ پورے اترے حکم خداوندی کی تعمیل میں لمحہ بھر نہ ڈگمگائے۔ ان کے جانے کے بعد اللہ کی مدد آئ اور نھنھے اسماعیلؑ کی ایڑھیوں کی رگڑ سے معجزاتی پانی کا چشمہ پھوٹ گیا ۔پانی کی تلاش میں ایک بے قّرار ماں کی یاس وامید کے بحر بیکراں کے بیچ گردش کی یہ ادا رب کائنات کے دربار میں مقبول ہوئ اور تاقیامت بنی نوع انسان کے لیے شعائر حج کا اہم رکن بن گئ
ایک عام فہم اور ناقص الا ایمان خاتون کے دل و دماغ میں کتنا کچھ منفی آ سکتا ہے ْ مگر یہ خاتون حضرت حاجرہ ہیں جو صبر و استقامت کی پیکر ہیں ْ جنہوں نے اپنے شوہر حضرت ابراہیم ؑ کے دین اسلام کو دل وجان سے قبول کیا اور اپنایا یہاں تک کے تنہاء صحراء نشین ہونا گوارا کیا مگر اللہ اور اس کے نبیؑ کی حکم عدولی نہ کی ۔کتنی امید بھری دعائیں اپنے رب سے مانگی ہوں گی ْ یقین اور شعور کی پوری سچائیوں کے ساتھ جبھی تو شہہ رگ سے بھی قریب موجود اس پاک ذات نے ان کی وفا اور ایمان کا نزرانہ نہ صرف قبول کیا بلکہ دین کا ایک تابندہ چراغ بنا کر امت اسلام کی رہنمائ اور تقلید کا استعارہ بنا دیا۔
آج کی عورت اپنے دین دار شوہر کے باپردہ رہنے کے حکم کو جبر اور شخصی آزادی کے خلاف سمجھ کر شوہر کو ظالم اور انتہاء پسند کہتی نظر آرہی ہے ۔کیا حضرت حاجرہؑ جیسی عفت مآب ہستی کی زندگی سے ہم نے یہی سبق سیکھا ہے ۔بہت زیادہ سوچنے کا مقام ہے ۔کیا ہم عید پر صرف اچھے پکوان پکانا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں یا بحیثیت مسلم عورت خوش دلی سے اپنے شوہر کی اطاعت کوبھی دین کا لازمی جزوسمجھتے ہیں۔
آزمائشیں یہیں پر نہ ختم ہوئیں جب حضرت اسماعیلؑ لڑکپن کی عمر کو پہنچے تو خواب میں حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے دکھایاکہ وہ اپنے صاحبزادے اسماعیل ؑ کو زبح کر رہے ہیں ۔
یہ ایک حکم الہی تھا جو خواب میں دکھائ دیا ۔انہوں نے بیوی سے پوچھا تو بغیر پس وپیش کے وہ راضی ہو گئی کہ حکم خداوندی انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا ۔حضرت اسماعیل ؑ کی للہّٰیت کا عالم تودیکھیے ۔کھیل کود کے دن ہیں اور باپ جیسی شفیق ہستی اتنی بڑی قربانی مانگ رہی ہے ۔مگر خاندان نبّوت کے اس بہادر مجاہد نے فورا” حامی بھر لی اور کہا کہ”بابا جان یہ اللہ کا حکم ہے تو دیر نہ کیجیے، آپ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے ۔اس سے پہلے کہ شفقت پدری غالب آئے آپ تعمیل فرمائیں “
سبحان اللہ کیسا انوکھا ہے یہ ” خلیل اللہ ” کا کنبہ ۔اس کنبے کی وفا دیکھ کر تو فرشتے بھی ششدر رہ گئے ہوں گے ایسانرالا نظارہ تو رو زمیں پر کبھی کسی چشم بینا نے نہ دیکھا ہوگا اور نہ ہی آئندہ کبھی دیکھ پائے گا ۔یونہی تو نہی اللہ نے انہیں اپنے دوست کا لقب دیا ۔کتنا کڑا امتحان دیا انہوں نے اورکتنی اعلی کامیابی ملی ۔ عین چھری چلاتے وقت زبیح اللہ حضرت اسماععیل ؑ کی جگہہ ایک مینڈھا رکھ دیا گیا ۔اللہ پاک کو تو مطلوب ہی تقوی تھا ْ بیٹوں کو زبح کرنے کی سنت مطلوب نہ تھی ۔
حضرت اسماعیل ؑ کی صلب اطہر سے نبی پاک حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ۔ آج ہماری نوجوان نسل عید الضحی کو صرف اپنے جانوروں کی نمائش کرنےکی حد تک مناتی ہیں ان کی فرمانبرداری کا جائزہ لینے کے لیے ان سے عشر ذی الحج کے دوران صرف انٹرنیٹ بند رکھنے اوراس قیمتی وقت کو ذکراللہ کے لیے وقف کرنے کا کہہ کر دیکھ لیجیے خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ آج ہماری نوجوان نسل کس حد تک اللہ کی راہ میں قربانی دینے والی ہیں ۔
فلسف قربانی کی روح سمجھے بغیر ایک تہوار سمجھ کر عید الضحی کو منا لینا کافی نہی ۔ہمیں ان تمام مراتب عبودیت پر غور کرنا ہے اور ان سے حاصل شدہ اسباق کو ہرض جان بنانا ہے۔اللہ پاک ہمیں سمجھنے والا اور عمل کرنے والا بنائے ۔